Friday, September 30, 2016

مسکرائیے


پروفیسر صاحب انتہائی اہم موضوع پر لیکچر دے رہے تھے، جیسے ہی آپ نے تختہ سیاہ پر کچھ لکھنے کیلئے رخ پلٹا کسی طالب علم نے  سیٹی ماری۔
پروفیسر صاحب نے مڑ کر پوچھا کس نے سیٹی ماری ہے تو کوئی بھی جواب دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ آپ نے قلم بند کر کے جیب میں رکھا اور رجسٹر اٹھا کر چلتے ہوئے کہا؛ میرا لیکچر اپنے اختتام کو پہنچا اور بس آج کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔
پھر انہوں نے تھوڑا سا توقف کیا، رجسٹر واپس رکھتے ہوئے کہا، چلو میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں تاکہ پیریڈ کا وقت بھی پورا ہوجائے۔

Wednesday, September 28, 2016

نوراں..


دسمبر کے اوائل کی بات ہے جب محکمہ اوقاف نے زبردستی میری تعیناتی شیخو پورےکے امیر محلے کی جامعہ مسجد سے ہیرا منڈی لاہور کی ایک پرانی مسجد میں کر دی. وجہ یہ تھی کے میں نے قریبی علاقے کے ایک کونسلر کی مسجد کے لاوڈ سپیکر پے تعریف کرنے سے انکار کر دیا تھا. شومئی قسمت کے وہ کونسلر محکمہ اوقاف کے ایک بڑے افسرکا بھتیجا تھا. نتیجتاً میں لاہور شہر کے بدنام ترین علاقے میں تعینات ہو چکا تھا. بیشک کہنے کو میں مسجد کا امام جا رہا تھا مگر علاقے کا بدنام ہونا اپنی جگہ. جو سنتا تھا ہنستا تھا یا پھر اظھار افسوس کرتا تھا.محکمے کے ایک کلرک نے تو حد ہی کر دی.

Monday, September 26, 2016

بند ہتیھلی


ایک مرتبہ ایک بزرگ نے ایک محفل میں اپنی بند ہتھیلی کوسب کی طرف کر کے دریافت فرمایا میرے ہاتھ میں کیا ہے۔؟
کچھ نے جواب دیا شائد آپ کے ہاتھ میں ہیرے جواہیرات ہیں،
پھر ایک صاحب سے پوچھا انہوں نے بھی کچھ سوچ کے بعد جواب دیا شائد سونا ہے۔...
پھر پوچھنے پر ایک نے جواب دیا کہ آپ کے ہاتھ میں اگر ہیرے جواہیرات نہیں اور سونا بھی نہیں تو یقینا ً

Sunday, September 25, 2016

نعتیہ مشاعرہ اور جگر مراد آبادی


اجمیر میں نعتیہ مشاعرہ تھا، فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر ؔصاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے ، وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔ دراصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔

Monday, September 5, 2016

چغل خور


کسی گاؤں میں ایک چغل خور رہتا تھا۔ دوسروں کی چغلی کھانااس کی عادت تھی اور وہ کوشش کے باوجود اس عادت کونہ چھوڑسکا تھا۔ اسی عادت کی وجہ سے اسے اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔کچھ دن وہ اپنی جمع پونجی پر گزربسر کرتا رہا،پھر جب نوبت فاقوں تک آگئی تواس نے گاؤں کو چھوڑ کر کہیں اور قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ تھوڑا سا ضروری سامان ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوگیا اور چلتے چلتے ایک اور گاؤں میں جاپہنچا۔یہ گاؤں اس کے لئے نیا تھااور اسے وہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔وہ ایک کسان کے پاس گیااور اس سے ملازمت کی درخواست کی۔

صبر اور اجر


ایک عورت کو اللّٰہ ہر بار اولادِ نرینہ سے نوازتا مگر چند ماہ بعد وہ بچہ فوت ہو جاتا۔ لیکن وہ عورت ہر بار صبر کرتی اور اللّٰہ کی حکمت سے راضی رہتی تھی۔ مگر اُس کے صبر کا امتحان طویل ہوتا گیا اور اسی طرح ایک کے بعد ایک اُس عورت کے بیس بچّے فوت ہوئے۔ آخری بچّے کے فوت ہونے پر اُس کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ آدھی رات کو زندہ لاش کی طرح اُٹھی اور اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سر سجدے میں رکھ کر خوب روئی اور اپنا غم بیان کرتے ہوئے کہا

موتی کی قیمت


ایک استاد تھا وہ اکثر اپنے شاگردوں سے کہا کرتا تھا کہ یہ دین بڑا قیمتی ہے۔ ایک روز ایک طالب علم کا جوتا پھٹ گیا۔ وہ موچی کے پاس گیا اور کہا: میرا جوتا مرمت کردو۔ اس کے بدلہ میں ، میں تمہیں دین کا ایک مسئلہ بتاؤں گا۔موچی نے کہا :اپنا مسئلہ رکھ اپنے پاس۔ مجھے پیسے دے۔طالبِ علم نے کہا :میرے پاس پیسے تونہیں ہیں۔