ہمیں اماں جی اس وقت زہر لگتیں جب وہ سردیوں میں زبردستی ہمارا سر دھوتیں ، لکس، کیپری، ریکسونا کس نے دیکھے تھے ۔۔۔ کھجور مارکہ صابن سے کپڑے بھی دھلتے تھے اور سر بھی۔ آنکھوں میں صابن کانٹے کی طرح چبھتا اور کان اماں کی ڈانٹ سے لال ہو جاتے۔ ہماری ذرا سی شرارت پر اماں آگ بگولہ ہو جاتیں اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھا لیتیں جسے ہم "ڈمنی" کہتےتھے۔
لیکن مارا کبھی نہیں ۔۔ ۔ کبھی عین وقت پر دادی جان نے بچا لیا کبھی بابا نے اور کبھی ہم ہی بھاگ لئے۔ گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا۔ ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹوئر ہوا کرتا تھا اور اس ٹوئر سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے ان کا دوپٹا کھینچتے پھران کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے۔ کبھی اماں گاؤںساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے بھاگتے۔ شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے۔ ہمیں گاؤں بہت اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے" ماں میرے سوال پر گھسا پٹا جواب دیتیں" جب تو بڑا ہو گا ، نوکری کرے گا بہت سے پیسے آئیں گے تیری شادی ہو گی وغیرہ وغیرہ" یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے مجھے یاد ہے گاؤں میں بابا مظفر کے ہاں شادی کا جشن تھا، وہاں جلنے بھجنے والی بتیاں بھی لگی تھیں اور پٹا خے بھی پھوٹ رہے تھے۔ میں نے ماں کی بہت منت کی کہ رات ادھر ہی ٹھہر جائیں لیکن وہ نہیں مانیں ۔ جب میں ماں کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آ رہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور چپکے سے واپس گاؤں لوٹ گیا شام کا وقت تھا۔ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا۔ وہ پاگلوں کی طرح رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں لگاتی پھرتی رہی اور ڈیرے سے لیکر گاؤں تک ہر کنویں میں لالٹین لٹکا کر جھانکتی رہیں رات گئے جب میں شادی والے گھر سے بازیاب ہوا تو وہ شیرنی کی طرح مجھ پر حملہ آور ہوئیں ۔ اس رات اگر گاؤں کی عورتیں مجھے نہ بچاتیں تو اماں مجھے مار ہی ڈالتیں ۔
لیکن مارا کبھی نہیں ۔۔ ۔ کبھی عین وقت پر دادی جان نے بچا لیا کبھی بابا نے اور کبھی ہم ہی بھاگ لئے۔ گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا۔ ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹوئر ہوا کرتا تھا اور اس ٹوئر سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے ان کا دوپٹا کھینچتے پھران کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے۔ کبھی اماں گاؤںساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے بھاگتے۔ شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے۔ ہمیں گاؤں بہت اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے" ماں میرے سوال پر گھسا پٹا جواب دیتیں" جب تو بڑا ہو گا ، نوکری کرے گا بہت سے پیسے آئیں گے تیری شادی ہو گی وغیرہ وغیرہ" یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے مجھے یاد ہے گاؤں میں بابا مظفر کے ہاں شادی کا جشن تھا، وہاں جلنے بھجنے والی بتیاں بھی لگی تھیں اور پٹا خے بھی پھوٹ رہے تھے۔ میں نے ماں کی بہت منت کی کہ رات ادھر ہی ٹھہر جائیں لیکن وہ نہیں مانیں ۔ جب میں ماں کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آ رہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور چپکے سے واپس گاؤں لوٹ گیا شام کا وقت تھا۔ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا۔ وہ پاگلوں کی طرح رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں لگاتی پھرتی رہی اور ڈیرے سے لیکر گاؤں تک ہر کنویں میں لالٹین لٹکا کر جھانکتی رہیں رات گئے جب میں شادی والے گھر سے بازیاب ہوا تو وہ شیرنی کی طرح مجھ پر حملہ آور ہوئیں ۔ اس رات اگر گاؤں کی عورتیں مجھے نہ بچاتیں تو اماں مجھے مار ہی ڈالتیں ۔
ایک بار ابو جی اپنے پیر صاحب کو ملنے سرگودھا گئے ہوئے تھے میں اس وقت چھ سات سال کا تھا۔مجھے شدید بخار ہو گیا۔ اماں جی نے مجھے لوئی میں لپیٹ کر کندھے پر اُٹھایا اور کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی تین کلو میٹر دور گاؤں کے اڈے پر ڈاکٹر کو دکھانے لے گئیں ۔واپسی پر ایک کھالے کو پھلانگتے ہوئے وہ کھلیان میں گر گئیں لیکن مجھے بچا لیا، انہیں شائد گھٹنے پر چوٹ آئی ان کے منہ سے میرے لئے حسبی اللہ نکلا اور اپنے سسرال والوں کے لئے کچھ ناروا الفاظ۔ یہ واقعہ میری زندگی کی سب سے پرانی یادداشتوں میں سے ایک ہے۔یقیناً وہ بہت بڑی ہمت والی خاتون تھیں ،اور آخری سانس تک سخت محنت مشقت کی چکی پیستی رہیں پھر جانے میں کب بڑا ہو گیا اور اماں سے بہت دور چلا گیا سال بعد جب گھر آتا تو ماں گلے لگا کر خوب روتی لیکن میں سب کے سامنے ہنستا رہتا۔ پھر رات کو جب سب سو جاتے تو چپکے سے ماں کے ساتھ جا کے لیٹ جاتا اور اس کی چادر میں منہ چھپا کر خوب روتا۔ ماں کھیت میں چارہ کاٹتی اور بہت بھاری پنڈ سر پر اٹھا کر ٹوکے کت سامنے آن پھینکتی۔ کبھی کبھی خود ہی ٹوکے میں چارہ ڈالتی اور خود ہی ٹوکا چلاتی۔ جب میں گھر ہوتا تومقدور بھر ان کا ہاتھ بٹا تا۔ جب میں ٹوکہ چلاتے چلاتے تھک جاتا تو وہ سرگوشی میں پوچھتیں "بات کروں تمہاری فلاں گھر میں ۔۔۔؟ وہ جانتی تھیں کہ میں پیدائشی عاشق ہوں اور ایسی باتوں سے میری بیٹری فل چارج ہو جاتی ہے۔ پھر ہم نے گاؤں میں گھر بنا لیا ۔اور ماں نے اپنی پسند سے میری شادی کر دی میں فیملی لے کر شہر چلا آیا اور ماں نے گاؤں میں اپنی الگ دنیا بسا لی وہ پہلے میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر شہر بھی آئیں ، میں نے انہیں سمندر کی سیر بھی کرائی کلفٹن کے ساحل پر چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا " اس سمندر سے تو ہمارے ڈیرے کا چھپڑ زیادہ خوبصورت لگتا ہے ماں بیمار ہوئی تو میں چھٹی پر ہی تھا۔ انہیں کئی دن تک باسکو پان کھلا کر سمجھتا رہا کہ معمولی پیٹ درد ہے ، جلد افاقہ ہو جائے گا، پھر درد بڑھا تو شہر کے بڑے ہسپتا ل لے گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری سٹیج پر ہے خون کی فوری ضرورت محسوس ہوئی تو میں خود بلڈ بینک بیڈ پر جا لیٹا، ماں کی پتہ لگا تو اس نے دکھ سے دیکھ کر اتنا کہا کہ کیوں دیا خون، کہیں سے خرید لاتا ، پاگل کہیں کا۔ ۔ ۔ میں بمشکل اتنا کہہ سکا" اماں خون کی چند بوندوں سے تو وہ قرض بھی ادا نہیں ہو سکتا جو آپ مجھے اٹھا کر گاؤں ٖڈاکٹر کے پاس لے کر گئی تھیں اور واپسی پر کھالا پھلانگتے ہوئے گر گئی تھیں وہ کھلکھلاکر ہنسیں تو میں نے کہا" اماں مجھے معاف کر دینا میں تیری خدمت نہ کر سکا میرا خیال ہے کہ میں نے شائد ہی اپنی ماں کی خدمت کی ہو، وقت ہی نہیں ملا لیکن وہ بہت فراغ دل تھیں بستر مرگ پر جب بار بار میں اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کر رہا تھا تو کہنے لگیں " میں راضی ہوں بیٹا کاہے کو بار بار معافی مانگتا ہے" ماں نے میرے سامنے دم توڑا لیکن میں رویا نہیں دوسرے دن سر بھاری ہونے لگا تو قبرستان چلا گیا اور قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر رویا
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
ماں سے بچھڑےمدت ہو گئی، اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ ماں کبھی اس دنیا میں تھی بھی کہ نہیں ، آج بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے پٹھانوں اور سوڈانیوں کے ہاتھوں فٹ بال بنتا بنتا جانے کیسے دیوار کعبہ سے جا ٹکرایا یوں لگا جیسے مدتوں بعد ایک بار پھر ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں وہی سکون جو ماں کی گود میں آتا تھا ، وہی اپنائیت وہی محبت جس میں خوف کا عنصر بھی شامل تھا، اس بار منہ پھاڑ پھاڑ کر نہیں ، دھاڑیں مار مار کر رویا، ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا رب کعبہ اور ہم سدا کے شرارتی بچے
ماں کی محبت سے متعلق ائیر وائس مارشل ریٹائرڈ ملک خداداد خان صاحب کی فرستادہ دل کو چھو لینے والی اور اردو ادب کی ایک شاہکار تحریر۔
No comments:
Post a Comment
آپ کی قابل قدر رائے کا بہت شکریہ۔ ۔ ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ آئندہ بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں گے