دوپہر کا وقت تھا۔ گاؤں کی گلیاں سنسان ہی تھیں۔ ایک شخص نے دیوار پھلانگی اور صحن میں جا کر اندر سے کنڈی کھول دی۔ پانچوں افراد اس گھر کے صحن میں داخل ہو گئے۔ اور اسلحہ لہراتے ہوئے کمرے میں گھس گئے۔ اکیلی عورت گھبرا کر چیخیں مارنے لگی۔ ایک شخص نے اسکے سر میں بندوق کا بٹ پارا اور اسے گھسیٹتے ہوئے صحن میں لایا۔ پھر لاتوں گھوسوں کی بارش کر دی۔ اس جواں سال عورت کو بے دریغ مارنے کے بعد اسے گھسیٹ کر باہر گلی میں لے آیا۔ لوگ گھروں سے نکل آئے لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ انہیں روکتا۔ وجہ ساف تھی۔ وہ عورت ایک رقاصہ تھی۔ شادی بیاہ پر ناچ گانا کر کے کمانے والی وہ عورت گاؤں والوں کو ایک آنکھ نہ بھاتی۔ پچھلے دنوں ساتھ والے گاؤں کے نمبردار کے بیٹے کی شادی میں اسے پوری رات نچایا گیا مگر پیسے نہیں دیے گئے۔ نمبردار کے بیٹوں سے ان بن ہو گئی تو اس نے تھانے جا کر شکایت کر دی۔ آج وہی لڑکے اسے زدوکوب کر رہے تھے۔ سالی میرے پر کیس کرے گی؟ ایک شخص غرایا اور اسکے ہاتھ سے دوپٹہ چھین کر دور پھینک دیا۔ پھر اسے کلاشنکوف سے ایک ضرب لگائی اور وہ بیچاری اوندھے منہ زمین پر گر گئی۔ ایک شخص نے اسکے سر پہ زوردار ٹھڈا لگایا۔ پھر اسے پلٹ دیا۔ خون آلود چہرہ مٹی میں سنا ہوا تھا۔ دوسرے شخص نے مٹھی میں خاک بھری اور اسکے چہرے پہ مل دی۔ ایک اور شخص نے نالی میں ہاتھ ڈالا اور غلاظت نکال کر اس عورت کے چہرے پہ مل دی۔ خون الودہ چہرہ اب کالا ہو گیا تھا۔ اس نے بندوق ایک جانب رکھی اور اس عورت کے گریبان کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اس ایک ہی وار میں اسکی قمیض تار تار ہو چکی تھی۔ اسے کھڑا کر دیا گیا اور گاؤں والے اسکا تماشا دیکھنے لگے۔ اسکے سینے پر باقی بچا کپڑا بھی نوچ کر پھینک دیا گیا۔ وہ نیم بے ہوش عورت کھلی آنکھوں سے گاؤں والوں کو دیکھ رہی تھی۔ اللہ ، اللہ کی صدا اسکے حلق میں دب کر رہ گئی تھی۔ اس شخص نے اسکے بالوں کو زور سے پکڑا اور دوسرے شخص نے اسکی شلوار اتار کر اسکے پیروں میں گرا دی۔ وہ اب برہنہ تھی۔ سبھی اسکی عزت کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اسی پر اکتفا نہ ہوا بلکہ اسے گاؤں کی گلیوں میں گھمایا گیا اور اسکے برہنہ جسم کا نطارہ گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے نے کیا۔ اس دوران ہوائی فائرنگ کی وجہ سے لوگ بھی خوف و ہراس میں مبتلا رہے۔ بالآخر اس عورت کو اسکے دروازے پر چھوڑ کر وہ لوگ ہوائی فائرنگ کرتے فرار ہو گئے۔
ایک زندہ لاش مٹی اور غلاظت میں سنی ہوئی، بے لباس ، بے عزت ، اپنی سانسوں کو بحال کرتی ہوئی اٹھی اور چپ چاپ اندر جا کر کنڈی لگا دی۔ اگلے روز اسی گھر سے ایک لاش نکلی۔ ایک زندہ لاش۔ میک اپ زدہ چہرہ لیے۔
آج اسکا ارادہ کچھ اور تھا۔ نمبردار کے بیٹوں سے بدلا لینے کے لیے اس نے تھانے جا کر اپنا جسم رشوت کے طور پیش کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ آج وہ ایک رقاصہ سے ایک فاحشہ بن گئی تھی۔ جسم فروش بن گئی تھی۔ آج وہ جان گئی تھی کہ معاشرے کا ہر مرد درندہ ہے۔ اور ہر عورت اسے اپنی تسکین کا ایک ذریعہ دکھائی دیتی ہے۔ جب معاشرے کے مرد سفاک ہو جائیں، تو معاشرے کی عورتیں بے باک ہو ہی جاتی ہیں۔
ایک زندہ لاش مٹی اور غلاظت میں سنی ہوئی، بے لباس ، بے عزت ، اپنی سانسوں کو بحال کرتی ہوئی اٹھی اور چپ چاپ اندر جا کر کنڈی لگا دی۔ اگلے روز اسی گھر سے ایک لاش نکلی۔ ایک زندہ لاش۔ میک اپ زدہ چہرہ لیے۔
آج اسکا ارادہ کچھ اور تھا۔ نمبردار کے بیٹوں سے بدلا لینے کے لیے اس نے تھانے جا کر اپنا جسم رشوت کے طور پیش کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ آج وہ ایک رقاصہ سے ایک فاحشہ بن گئی تھی۔ جسم فروش بن گئی تھی۔ آج وہ جان گئی تھی کہ معاشرے کا ہر مرد درندہ ہے۔ اور ہر عورت اسے اپنی تسکین کا ایک ذریعہ دکھائی دیتی ہے۔ جب معاشرے کے مرد سفاک ہو جائیں، تو معاشرے کی عورتیں بے باک ہو ہی جاتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment
آپ کی قابل قدر رائے کا بہت شکریہ۔ ۔ ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ آئندہ بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں گے