دہلی میں دوران ملاقات سیٹھ حاجی محمد صدیق‘ مالک بمبئے کلاتھ ہاؤس نے
قائداعظم سے عرض کی کہ اب کے آپ لاہور تشریف لائیں تو ہماری دکان کو بھی
اپنے قدم میمنت لزوم سے زینت بخشیں۔ قائداعظم جو مسلمانوں کی بہتری و
بہبودی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے‘ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ لاہور میں
مسلمانوں اور وہ بھی میمن برادری کی ایک شایان شان دکان ہے۔ فرمانے لگے ،اب
کے لاہور آیا تو تمھاری دکان بھی ضرور دیکھوں گا۔
چناںچہ اپریل 1944ء میں جب وہ لاہور تشریف لائے تو ایک دن بارہ بج کر دس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا۔ دکان کے منیجر نے دس کروڑ مسلمانوں کے اس عظیم الشان قائد کے استقبال کے لیے جو کچھ بھی ہو سکتا تھا ،کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ دکان زربفت کپڑوں سے دلہن کی طرح سجائی گئی۔ شاندار چائے پارٹی کا انتظام کر کے دیگر مسلمان تاجروں کو بھی بلا لیا گیا۔ معائنے کے دوران انھوں نے چائنہ کارڈ اورپیور ریشم کے کپڑے بھی پسند فرمائے جو انھیں تحفتاً پیش کیے گئے۔
لیکن انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر ان کپڑوں کابل پیش کر دیا جائے تو وہ لے لیں گے کیونکہ کپڑے انھیں پسند ہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ انھیں بطور تحفہ قبول کر لیں‘ مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ آخر بل پیش کر دینے کے پختہ وعدے پر انھوں نے کپڑے رکھ لیے۔ ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ایک اچکن ہم سے سلوائی جائے۔ وہ اس شرط پر رضامند ہوئے کہ درزی اچھا ہو اور ناپ ڈیوس روڈ پر ممدوٹ ولا میں لیا جائے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ دکان پر ناپ نہیں دینا چاہتے تھے۔
دوسرے دن ماسٹر فیروز کو لے کر میں قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ناپ سے فارغ ہو کر ہم واپس آنے لگے توفرمایا کہ اچکن کے لیے حیدر آبادی بٹنوں کے سیٹ لے آنا۔ فرمائش کے مطابق دوسرے دن صبح دس بجے ہم ممدوٹ ولا پہنچے۔ بٹنوں کے سیٹ جو ہم ساتھ لائے تھے‘ اُن کو ایک نظر دیکھا اور چار سیٹ پسند کرکے الگ رکھ لیے۔ باقی واپس کر دیے۔ کہنے لگے، بل لاؤ۔ بل کے لیے وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اصرار کر چکے تھے۔
چونکہ ہم بل نہیں دینا چاہتے تھے‘ اس لیے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے‘ مگر شاید وہ ہمارا ارادہ سمجھ گئے۔ آج بل کے لیے قدرے سخت اور درشت لہجے میں مطالبہ کیا‘ کہنے لگے ’’میں ادھار لینے کا عادی نہیں۔ بل لاؤ۔ ورنہ کپڑے واپس کر دیے جائیں گے۔‘‘
میں نے منیجر سے کہا کہ یہاں ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔ بل دینا ہی پڑے گا۔ ورنہ وہ سارے کپڑے لوٹا دیں گے۔ منیجر نے خاصا رعایتی بل بنا کر دیا جو آدھے سے بھی کم قیمت پر مشتمل تھا۔ میں نے جا کر خدمت میں پیش کر دیا جسے دیکھ کر مسکرائے‘ کہنے لگے: ’’یہ بل مناسب نہیں ‘ تم نے قیمتیں جان بوجھ کر کم لگائی ہیں۔‘‘ میں نے کہا‘ منیجر نے آپ کو خاص رعایت دی ہو گی۔ کہنے لگے : ’’رعایت کی اور بات ہے۔ یہ رعایت سے مختلف صورت ہے۔ تم بل درست کر کے لاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر بل واپس کر دیا۔ اس کے بعد میں نے بٹن والے کا بل پیش کیا‘ جو دس روپے کی مالیت پر مشتمل تھا۔
بل دیکھ کر فرمایا: ’’بھئی واہ۔ ایک سیٹ میں تو تین تین بٹن کم ہیں‘ لیکن بل تم نے پورے کا بنا دیا۔‘‘ یہ کہنا درست تھا۔ ایک سیٹ میں بٹن کم تھے۔ لیکن بل میں نے اس خیال سے دیکھا نہ تھا۔ دکاندار نے بھی اس کی پروا نہ کی تھی۔ بہرحال بل کو درستی کے لیے واپس لانا پڑا۔
لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ آخر کیا بات ہے کہ ایک طرف تو سیکڑوں روپے کی رعایت کو بھی یہ شخص قبول نہیں کرتا۔ دوسری جانب تین بٹنوں کے آٹھ آنے بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں؟
چناںچہ اپریل 1944ء میں جب وہ لاہور تشریف لائے تو ایک دن بارہ بج کر دس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا۔ دکان کے منیجر نے دس کروڑ مسلمانوں کے اس عظیم الشان قائد کے استقبال کے لیے جو کچھ بھی ہو سکتا تھا ،کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ دکان زربفت کپڑوں سے دلہن کی طرح سجائی گئی۔ شاندار چائے پارٹی کا انتظام کر کے دیگر مسلمان تاجروں کو بھی بلا لیا گیا۔ معائنے کے دوران انھوں نے چائنہ کارڈ اورپیور ریشم کے کپڑے بھی پسند فرمائے جو انھیں تحفتاً پیش کیے گئے۔
لیکن انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر ان کپڑوں کابل پیش کر دیا جائے تو وہ لے لیں گے کیونکہ کپڑے انھیں پسند ہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ انھیں بطور تحفہ قبول کر لیں‘ مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ آخر بل پیش کر دینے کے پختہ وعدے پر انھوں نے کپڑے رکھ لیے۔ ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ایک اچکن ہم سے سلوائی جائے۔ وہ اس شرط پر رضامند ہوئے کہ درزی اچھا ہو اور ناپ ڈیوس روڈ پر ممدوٹ ولا میں لیا جائے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ دکان پر ناپ نہیں دینا چاہتے تھے۔
دوسرے دن ماسٹر فیروز کو لے کر میں قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ناپ سے فارغ ہو کر ہم واپس آنے لگے توفرمایا کہ اچکن کے لیے حیدر آبادی بٹنوں کے سیٹ لے آنا۔ فرمائش کے مطابق دوسرے دن صبح دس بجے ہم ممدوٹ ولا پہنچے۔ بٹنوں کے سیٹ جو ہم ساتھ لائے تھے‘ اُن کو ایک نظر دیکھا اور چار سیٹ پسند کرکے الگ رکھ لیے۔ باقی واپس کر دیے۔ کہنے لگے، بل لاؤ۔ بل کے لیے وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اصرار کر چکے تھے۔
چونکہ ہم بل نہیں دینا چاہتے تھے‘ اس لیے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے‘ مگر شاید وہ ہمارا ارادہ سمجھ گئے۔ آج بل کے لیے قدرے سخت اور درشت لہجے میں مطالبہ کیا‘ کہنے لگے ’’میں ادھار لینے کا عادی نہیں۔ بل لاؤ۔ ورنہ کپڑے واپس کر دیے جائیں گے۔‘‘
میں نے منیجر سے کہا کہ یہاں ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔ بل دینا ہی پڑے گا۔ ورنہ وہ سارے کپڑے لوٹا دیں گے۔ منیجر نے خاصا رعایتی بل بنا کر دیا جو آدھے سے بھی کم قیمت پر مشتمل تھا۔ میں نے جا کر خدمت میں پیش کر دیا جسے دیکھ کر مسکرائے‘ کہنے لگے: ’’یہ بل مناسب نہیں ‘ تم نے قیمتیں جان بوجھ کر کم لگائی ہیں۔‘‘ میں نے کہا‘ منیجر نے آپ کو خاص رعایت دی ہو گی۔ کہنے لگے : ’’رعایت کی اور بات ہے۔ یہ رعایت سے مختلف صورت ہے۔ تم بل درست کر کے لاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر بل واپس کر دیا۔ اس کے بعد میں نے بٹن والے کا بل پیش کیا‘ جو دس روپے کی مالیت پر مشتمل تھا۔
بل دیکھ کر فرمایا: ’’بھئی واہ۔ ایک سیٹ میں تو تین تین بٹن کم ہیں‘ لیکن بل تم نے پورے کا بنا دیا۔‘‘ یہ کہنا درست تھا۔ ایک سیٹ میں بٹن کم تھے۔ لیکن بل میں نے اس خیال سے دیکھا نہ تھا۔ دکاندار نے بھی اس کی پروا نہ کی تھی۔ بہرحال بل کو درستی کے لیے واپس لانا پڑا۔
لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ آخر کیا بات ہے کہ ایک طرف تو سیکڑوں روپے کی رعایت کو بھی یہ شخص قبول نہیں کرتا۔ دوسری جانب تین بٹنوں کے آٹھ آنے بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں؟
No comments:
Post a Comment
آپ کی قابل قدر رائے کا بہت شکریہ۔ ۔ ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ آئندہ بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں گے