اس سے پہلے کہ کوئی اور جوابی وار آتا، یونیورسٹی سٹُوڈنٹ نے
جلے کٹے لہجے میں کہا، “چاچا جی جو قوم نہتے کنڈیکٹر کے سامنے کھڑی نہیں ہو
سکتی، وہ اپنے لیڈروں سے سُپر پاور کے سامنے کھڑا ہونے کا مطالبہ کرتی
ہوئی اچھی نہیں لگتی”۔ لاہور سے عارفوالا آنے والی بس پر کنڈیکٹر نے ڈیڑھ گُنا کرایہ طلب کیا تو ایک یونیورسٹی سٹوڈنٹ نے انکار کردیا
۔ کنڈیکٹر کا کہنا تھا کہ سی این جی والوں کے بائیکاٹ کے بعد اُنہیں پٹرول مہنگا پڑتا ہے، چُنانچہ زیادہ کرایہ لینا اُنکی مجبوری ہے۔ سٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ چونکہ کرائے ڈیزل کے ریٹ کے حساب سے طے ہوتے ہیں لہٰذا سی این جی اور پٹرول دونوں غیر متعلقہ چیزیں ہیں۔ قصہ مختصر، ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے مطلُوبہ کرایہ نہ دینے والوں سے اُترنے کا مطالبہ کردیا۔ مُجھ سمیت پانچ افراد اس شرط پر تیار ہوگئے کہ ہمیں واپس اڈے پر پہنچادیا جائے۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر راضی ہوئے ہی تھے کہ اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے ایک چاچا جی نے داڑھی چباتے ہوئے “پڑھے لکھے” لوگوں کو کوسنا شروع کردیا۔ پتا یہ چلا کہ حضرت کو عارفوالا پہنچنے کی جلدی ہے اور ہماری “خوامخواہ کی تکرار” سے اُنکا ٹائم ضائع ہورہا ہے۔ اُن کے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون نے بھی حسبِ توفیق ہمیں دو چار سنا دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ باقی سارے لوگ خاموش ہو کر بیٹھ گئے سوائے میرے اور اُس یونیورسٹی سٹوڈنٹ کے۔ پھر تھوڑی دیر بعد ہم دونوں نے بھی چپ سادھ لی۔ دھیان بدلنے کیلئے اخبار کھولا تو پہلے ہی صفحے پر ڈرون حملے کی خبر تھی۔ چند لمحوں میں یہی ڈرون حملہ سب کی زبان پر تھا کہ اچانک اگلی نشست سے چاچا جی کی آواز ایک بار پھر اُبھری “بھائیو! ہمارے حکمران ہی بے غیرت ہیں، ورنہ خُدا کے فضل سے ہم کسی امریکہ وغیرہ سے نہیں ڈرتے۔ اگر ہمارے حکمران چاہیں تو ہماری فوج لمحوں میں گرا مارے ان ڈرونوں کو؟ عارفوالا پہنچنے تک چاچا کی آواز نہیں آئی.
۔ کنڈیکٹر کا کہنا تھا کہ سی این جی والوں کے بائیکاٹ کے بعد اُنہیں پٹرول مہنگا پڑتا ہے، چُنانچہ زیادہ کرایہ لینا اُنکی مجبوری ہے۔ سٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ چونکہ کرائے ڈیزل کے ریٹ کے حساب سے طے ہوتے ہیں لہٰذا سی این جی اور پٹرول دونوں غیر متعلقہ چیزیں ہیں۔ قصہ مختصر، ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے مطلُوبہ کرایہ نہ دینے والوں سے اُترنے کا مطالبہ کردیا۔ مُجھ سمیت پانچ افراد اس شرط پر تیار ہوگئے کہ ہمیں واپس اڈے پر پہنچادیا جائے۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر راضی ہوئے ہی تھے کہ اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے ایک چاچا جی نے داڑھی چباتے ہوئے “پڑھے لکھے” لوگوں کو کوسنا شروع کردیا۔ پتا یہ چلا کہ حضرت کو عارفوالا پہنچنے کی جلدی ہے اور ہماری “خوامخواہ کی تکرار” سے اُنکا ٹائم ضائع ہورہا ہے۔ اُن کے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون نے بھی حسبِ توفیق ہمیں دو چار سنا دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ باقی سارے لوگ خاموش ہو کر بیٹھ گئے سوائے میرے اور اُس یونیورسٹی سٹوڈنٹ کے۔ پھر تھوڑی دیر بعد ہم دونوں نے بھی چپ سادھ لی۔ دھیان بدلنے کیلئے اخبار کھولا تو پہلے ہی صفحے پر ڈرون حملے کی خبر تھی۔ چند لمحوں میں یہی ڈرون حملہ سب کی زبان پر تھا کہ اچانک اگلی نشست سے چاچا جی کی آواز ایک بار پھر اُبھری “بھائیو! ہمارے حکمران ہی بے غیرت ہیں، ورنہ خُدا کے فضل سے ہم کسی امریکہ وغیرہ سے نہیں ڈرتے۔ اگر ہمارے حکمران چاہیں تو ہماری فوج لمحوں میں گرا مارے ان ڈرونوں کو؟ عارفوالا پہنچنے تک چاچا کی آواز نہیں آئی.
No comments:
Post a Comment
آپ کی قابل قدر رائے کا بہت شکریہ۔ ۔ ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ آئندہ بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں گے