ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ "سمندر کی طرف جاؤ وہاں تین کشتیاں ڈوبنے والی ہیں "حضرت موسٰی علیہ السلام فوری حکم الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے سمندر کی جانب چل دئیے۔ ساحل پر سکون تھا، بہت دور سے ایک کشتی آتی دکھائی دی جو آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہی تھی ابھی وہ کنارے سے کچھ ہی فاصلے پر تھی کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے آواز دی کہ " اے کشتی والو! اللہ کا حکم آنے والا ہے ہوشیار رہنا انہوں نے جواب دیا
Thursday, August 25, 2016
ماں
ہمیں اماں جی اس وقت زہر لگتیں جب وہ سردیوں میں زبردستی ہمارا سر دھوتیں ، لکس، کیپری، ریکسونا کس نے دیکھے تھے ۔۔۔ کھجور مارکہ صابن سے کپڑے بھی دھلتے تھے اور سر بھی۔ آنکھوں میں صابن کانٹے کی طرح چبھتا اور کان اماں کی ڈانٹ سے لال ہو جاتے۔ ہماری ذرا سی شرارت پر اماں آگ بگولہ ہو جاتیں اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھا لیتیں جسے ہم "ڈمنی" کہتےتھے۔
لیکن مارا کبھی نہیں ۔۔ ۔ کبھی عین وقت پر دادی جان نے بچا لیا کبھی بابا نے اور کبھی ہم ہی بھاگ لئے۔ گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا۔ ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹوئر ہوا کرتا تھا اور اس ٹوئر سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے ان کا دوپٹا کھینچتے پھران کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے۔ کبھی اماں گاؤںساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے بھاگتے۔ شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے۔ ہمیں گاؤں بہت اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے" ماں میرے سوال پر گھسا پٹا جواب دیتیں" جب تو بڑا ہو گا ، نوکری کرے گا بہت سے پیسے آئیں گے تیری شادی ہو گی وغیرہ وغیرہ" یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے مجھے یاد ہے گاؤں میں بابا مظفر کے ہاں شادی کا جشن تھا، وہاں جلنے بھجنے والی بتیاں بھی لگی تھیں اور پٹا خے بھی پھوٹ رہے تھے۔ میں نے ماں کی بہت منت کی کہ رات ادھر ہی ٹھہر جائیں لیکن وہ نہیں مانیں ۔ جب میں ماں کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آ رہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور چپکے سے واپس گاؤں لوٹ گیا شام کا وقت تھا۔ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا۔ وہ پاگلوں کی طرح رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں لگاتی پھرتی رہی اور ڈیرے سے لیکر گاؤں تک ہر کنویں میں لالٹین لٹکا کر جھانکتی رہیں رات گئے جب میں شادی والے گھر سے بازیاب ہوا تو وہ شیرنی کی طرح مجھ پر حملہ آور ہوئیں ۔ اس رات اگر گاؤں کی عورتیں مجھے نہ بچاتیں تو اماں مجھے مار ہی ڈالتیں ۔
لیکن مارا کبھی نہیں ۔۔ ۔ کبھی عین وقت پر دادی جان نے بچا لیا کبھی بابا نے اور کبھی ہم ہی بھاگ لئے۔ گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا۔ ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹوئر ہوا کرتا تھا اور اس ٹوئر سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے ان کا دوپٹا کھینچتے پھران کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے۔ کبھی اماں گاؤںساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے بھاگتے۔ شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے۔ ہمیں گاؤں بہت اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے" ماں میرے سوال پر گھسا پٹا جواب دیتیں" جب تو بڑا ہو گا ، نوکری کرے گا بہت سے پیسے آئیں گے تیری شادی ہو گی وغیرہ وغیرہ" یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے مجھے یاد ہے گاؤں میں بابا مظفر کے ہاں شادی کا جشن تھا، وہاں جلنے بھجنے والی بتیاں بھی لگی تھیں اور پٹا خے بھی پھوٹ رہے تھے۔ میں نے ماں کی بہت منت کی کہ رات ادھر ہی ٹھہر جائیں لیکن وہ نہیں مانیں ۔ جب میں ماں کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آ رہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور چپکے سے واپس گاؤں لوٹ گیا شام کا وقت تھا۔ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا۔ وہ پاگلوں کی طرح رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں لگاتی پھرتی رہی اور ڈیرے سے لیکر گاؤں تک ہر کنویں میں لالٹین لٹکا کر جھانکتی رہیں رات گئے جب میں شادی والے گھر سے بازیاب ہوا تو وہ شیرنی کی طرح مجھ پر حملہ آور ہوئیں ۔ اس رات اگر گاؤں کی عورتیں مجھے نہ بچاتیں تو اماں مجھے مار ہی ڈالتیں ۔
ایک بار ابو جی اپنے پیر صاحب کو ملنے سرگودھا گئے ہوئے تھے میں اس وقت چھ سات سال کا تھا۔مجھے شدید بخار ہو گیا۔ اماں جی نے مجھے لوئی میں لپیٹ کر کندھے پر اُٹھایا اور کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی تین کلو میٹر دور گاؤں کے اڈے پر ڈاکٹر کو دکھانے لے گئیں ۔واپسی پر ایک کھالے کو پھلانگتے ہوئے وہ کھلیان میں گر گئیں لیکن مجھے بچا لیا، انہیں شائد گھٹنے پر چوٹ آئی ان کے منہ سے میرے لئے حسبی اللہ نکلا اور اپنے سسرال والوں کے لئے کچھ ناروا الفاظ۔ یہ واقعہ میری زندگی کی سب سے پرانی یادداشتوں میں سے ایک ہے۔یقیناً وہ بہت بڑی ہمت والی خاتون تھیں ،اور آخری سانس تک سخت محنت مشقت کی چکی پیستی رہیں پھر جانے میں کب بڑا ہو گیا اور اماں سے بہت دور چلا گیا سال بعد جب گھر آتا تو ماں گلے لگا کر خوب روتی لیکن میں سب کے سامنے ہنستا رہتا۔ پھر رات کو جب سب سو جاتے تو چپکے سے ماں کے ساتھ جا کے لیٹ جاتا اور اس کی چادر میں منہ چھپا کر خوب روتا۔ ماں کھیت میں چارہ کاٹتی اور بہت بھاری پنڈ سر پر اٹھا کر ٹوکے کت سامنے آن پھینکتی۔ کبھی کبھی خود ہی ٹوکے میں چارہ ڈالتی اور خود ہی ٹوکا چلاتی۔ جب میں گھر ہوتا تومقدور بھر ان کا ہاتھ بٹا تا۔ جب میں ٹوکہ چلاتے چلاتے تھک جاتا تو وہ سرگوشی میں پوچھتیں "بات کروں تمہاری فلاں گھر میں ۔۔۔؟ وہ جانتی تھیں کہ میں پیدائشی عاشق ہوں اور ایسی باتوں سے میری بیٹری فل چارج ہو جاتی ہے۔ پھر ہم نے گاؤں میں گھر بنا لیا ۔اور ماں نے اپنی پسند سے میری شادی کر دی میں فیملی لے کر شہر چلا آیا اور ماں نے گاؤں میں اپنی الگ دنیا بسا لی وہ پہلے میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر شہر بھی آئیں ، میں نے انہیں سمندر کی سیر بھی کرائی کلفٹن کے ساحل پر چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا " اس سمندر سے تو ہمارے ڈیرے کا چھپڑ زیادہ خوبصورت لگتا ہے ماں بیمار ہوئی تو میں چھٹی پر ہی تھا۔ انہیں کئی دن تک باسکو پان کھلا کر سمجھتا رہا کہ معمولی پیٹ درد ہے ، جلد افاقہ ہو جائے گا، پھر درد بڑھا تو شہر کے بڑے ہسپتا ل لے گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری سٹیج پر ہے خون کی فوری ضرورت محسوس ہوئی تو میں خود بلڈ بینک بیڈ پر جا لیٹا، ماں کی پتہ لگا تو اس نے دکھ سے دیکھ کر اتنا کہا کہ کیوں دیا خون، کہیں سے خرید لاتا ، پاگل کہیں کا۔ ۔ ۔ میں بمشکل اتنا کہہ سکا" اماں خون کی چند بوندوں سے تو وہ قرض بھی ادا نہیں ہو سکتا جو آپ مجھے اٹھا کر گاؤں ٖڈاکٹر کے پاس لے کر گئی تھیں اور واپسی پر کھالا پھلانگتے ہوئے گر گئی تھیں وہ کھلکھلاکر ہنسیں تو میں نے کہا" اماں مجھے معاف کر دینا میں تیری خدمت نہ کر سکا میرا خیال ہے کہ میں نے شائد ہی اپنی ماں کی خدمت کی ہو، وقت ہی نہیں ملا لیکن وہ بہت فراغ دل تھیں بستر مرگ پر جب بار بار میں اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کر رہا تھا تو کہنے لگیں " میں راضی ہوں بیٹا کاہے کو بار بار معافی مانگتا ہے" ماں نے میرے سامنے دم توڑا لیکن میں رویا نہیں دوسرے دن سر بھاری ہونے لگا تو قبرستان چلا گیا اور قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر رویا
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
ماں سے بچھڑےمدت ہو گئی، اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ ماں کبھی اس دنیا میں تھی بھی کہ نہیں ، آج بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے پٹھانوں اور سوڈانیوں کے ہاتھوں فٹ بال بنتا بنتا جانے کیسے دیوار کعبہ سے جا ٹکرایا یوں لگا جیسے مدتوں بعد ایک بار پھر ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں وہی سکون جو ماں کی گود میں آتا تھا ، وہی اپنائیت وہی محبت جس میں خوف کا عنصر بھی شامل تھا، اس بار منہ پھاڑ پھاڑ کر نہیں ، دھاڑیں مار مار کر رویا، ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا رب کعبہ اور ہم سدا کے شرارتی بچے
ماں کی محبت سے متعلق ائیر وائس مارشل ریٹائرڈ ملک خداداد خان صاحب کی فرستادہ دل کو چھو لینے والی اور اردو ادب کی ایک شاہکار تحریر۔
پرنالہ
جب ہمارا ریڈیو اسٹیشن نیا نیا بنا تھا تو بارش میں ایک تو اس کی چھتوں
پر پانی کھڑا ہو جاتا تھا اور دوسرا کھڑکی کے اندر سے پانی کی اتنی دھاریں
آ جاتی تھیں کہ کاغذ اور ہم خود بھی بھیگ جاتے ۔ ایک روز ایسی ہی بارش
میں ہم سب بیٹھ کر اس کو تعمیر کرنے والوں کو صلواتیں سنانے لگے کہ ایسا
ہی ہونا تھا ۔
سولہ آنے رشوت
ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند
بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن
وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سےانکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ اس کی درد ناک بپتا سُن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا
وزنی گلاس
ایک پروفیسر نے اپنی کلاس کا آغاز کرتے ہوئے ایک گلاس اٹھایا جس کے اندر کچھ پانی موجود تھا - اس نے وہ گلاس بلند کر دیا تا کہ تمام طلبہ اسے دیکھ لیں پھر اس نے طالب علموں سے سوال کیا " تمھارے خیال میں اس گلاس کا وزن کیا ہوگا ؟ "
" پچاس گرام " سو گرام ! "
" ایک سو پچیس گرام "
لڑکے اپنے اپنے اندازے سے جواب دینے لگے
مسجدوں کا عاشق
ایک شخص نے یوں قصہ سنایا کہ میں اور میرے ماموں نے حسب معمول مکہ حرم شریف میں نماز جمعہ ادا کی اورگھر کو واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے کچھ فاصلے پر ایک بے آباد سنسان مسجد آتی ہے، مکہ شریف کو آتے جاتے سپر ہائی وے سے بارہا گزرتے ہوئے اس جگہ اور اس مسجد پر ہماری نظر پڑتی رہتی ہے اور ہم ہمیشہ ادھر سے ہی گزر کر جاتے ہیں مگر آج جس چیز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی وہ تھی ایک نیلے رنگ کی فورڈ کار
کامیاب لوگ
ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺳﮑﭧ ﺑﺎﻝ ﭨﯿﻢ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ ﮔﯿﺎ ، ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ
ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻻﮎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﺭﻭﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ ﻟﮍﮐﺎ ﭼﮭﮯ ﺑﺎﺭ ﮐﺎ ﺑﺎﺳﮑﭧ
ﺑﺎﻝ ﭼﯿﻤﺌﯿﻦ " ﻣﺎﺋﯿﮑﻞ ﺟﺎﺭﮈﻥ " ﺑﻨﺎ
۔
۔
۔
۔
ﭼﺎﺭ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺗﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﻭﮦ ﮔﻮﻧﮕﺎ ﮨﮯ ﭼﺎﺭ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ
ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺑﻮﻻ
Friday, August 5, 2016
جیل اور جمعے کی نماز
انگریزوں کے زمانے میں ایک عالم بغاوت کے الزام میں جیل میں بند تھے۔ جمعے والے دن نہا دھو کر، تیل کنگھی کر کے انتظار میں رہتے، جونہی جمعے کی اذان ہوتی تیز تیز قدموں سے چلتے جیل کے مین گیٹ پر کھڑے ہو جاتے اور پوری اذان جیل کے گیٹ کی سلاخیں پکڑ کر سنتے اور پھر واپس آجاتے۔ انگریز جیلر، جو اُن کا یہ معمول دیکھ رہا تھا، آخر اس نے حافظ صاحب کو دفتر طلب کیا اور پوچھا کہ"تم یہ کیا تماشہ کرتے ہو
موت کے بعد کی کہانی
ریاض جانے کے لیےایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا۔ لیکن راستے میں رش اور چیکنگ
کی وجہ سے میں ائیرپورٹ لیٹ پہنچا۔جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی، اور
دوڑتے ہوئے کاﺅنٹرپر جا پہنچا۔ کاﺅنٹر پرموجودملازم سے میں نے کہا۔ مجھے
ریاض جانا ہے، اس نے کہا ریاض والی فلائٹ تو بند ہو چکی ہے، میں نے کہا
پلیز مجھے ضرور آج شام ریاض پہنچنا ہے۔ اُس نے کہا زیادہ باتوں کی ضرورت
نہیں ہے۔ اس وقت آپکو کوئی بھی جانے نہیں دے گا۔میں نے کہا اللہ تمھارا
حساب کردے۔اس نے کہا اس میں میراکیاقصور ہے؟ بہرحال میں ائیرپورٹ سے
باہر نکلا۔حیران تھا کیا کروں
عالم اور شہزادی
ﺑﻐﺪﺍﺩ ﭘﺮ ﺗﺎﺗﺎﺭﯼ ﻓﺘﺢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﮔﺸﺖ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ
ﺍﯾﮏ ﮨﺠﻮﻡ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ۔ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻟﻮﮒ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ : ﺍﯾﮏ
ﻋﺎﻟﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﺧﺘﺮِ ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ
ﺩﯾﺎ۔ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺗﺎﺗﺎﺭﯼ ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻻ ﺣﺎﺿﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﺎﻟﻢ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ : ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ؟
ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﺎﻟﻢ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ : ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ؟
چاچا جی، ڈرون حملے اور کنڈکٹر
اس سے پہلے کہ کوئی اور جوابی وار آتا، یونیورسٹی سٹُوڈنٹ نے
جلے کٹے لہجے میں کہا، “چاچا جی جو قوم نہتے کنڈیکٹر کے سامنے کھڑی نہیں ہو
سکتی، وہ اپنے لیڈروں سے سُپر پاور کے سامنے کھڑا ہونے کا مطالبہ کرتی
ہوئی اچھی نہیں لگتی”۔ لاہور سے عارفوالا آنے والی بس پر کنڈیکٹر نے ڈیڑھ گُنا کرایہ طلب کیا تو ایک یونیورسٹی سٹوڈنٹ نے انکار کردیا
برداشت
صدر ایوب خان پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے‘ وہ روزانہ سگریٹ کے دو بڑے
پیکٹ پیتے تھے‘ روز صبح ان کا بٹلر سگریٹ کے دو پیکٹ ٹرے میں رکھ کر ان کے
بیڈ روم میں آجاتاتھا اورصدر ایوب سگریٹ سلگا کر اپنی صبح کا آغاز کرتے
تھے‘ وہ ایک دن مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے‘ وہاں ان کا بنگا لی
بٹلرانہیں سگریٹ دینا بھول گیا‘ جنرل ایوب خان کو شدید غصہ آیا اورانہوں نے
بٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔
جستجو اور جنون
پتا
ھے! یہ جو جُستجُو ھے ناں۔۔۔۔! یہ بہت بے چین رکھتی ھے۔ اِس میں مبتلا شخص
اُس وقت تک قرار نہیں پاتا جب تک کہ وہ ِاسے مکمل نہ کرلے۔ کسی شے کی
جُستجُو کرنا یہ تو فطری عمل ھے، یہاں تک بات سمجھ میں بھی آتی ھے۔ لیکن
اُسی جُستجُو کو حاصل کرنے کی خاطر حد سے گزر جانا سمجھ میں نہیں آتا۔
کیونکہ خُدا کی بنائی اِس کائنات میں سب کی حدود مقرر ہیں اور کوئی شے ان
حدود سے تجاوز نہیں کرتی ھے۔
محبت کا صلہ محبت
ایک سخص اکثر ایک بوڑھی عورت سے سنگترے خریدا کرتا تھا ,وزن و پیمائش اور
قیمت کی ادا ئیگی سے فارغ ہوکر وہ سنگترے کو چاک کرتا اور ایک دانہ اپنے
منھ میں ڈال کے شکایت کرتا کہ یہ تو کھٹے ہیں ....اور یہ کہہ کے وہ سنگترہ
اس بوڑھی عورت کے حوالے کر دیتا..... وہ بزرگ عورت ایک دانہ چکھ کے کہتی "
یہ تو با لکل میٹھا ہے" مگر تب تک وہ خریدار اپنا تھیلہ لیکے وہا ں سے جا
چکا ہوتا ہے....
سیاہ فام مائیکل جیکسن
مائیکل جیکسن نے امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنز کی خدمات حاصل کیں ۔ یہاں تک کہ 1987ء تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت‘ جلد‘ نقوش اور حرکات و سکنات بدل گئیں۔ سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ گورا چٹا اورنسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آ گیا۔
اس نے 1987ء میں بیڈ کے نام سے اپنی تیسری البم جاری کی‘یہ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم تھی۔
اس نے 1987ء میں بیڈ کے نام سے اپنی تیسری البم جاری کی‘یہ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم تھی۔
گونگی چینخ
ﺍﺳﻘﺎﻁ ﺣﻤﻞ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ، ﺑﺮﺍﮦ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﺍﺱ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﮐﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮯ
ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺩﮬﮍکنیں ﺑﮍﮪ ﺟﺎئیں ﺗﻮ ﺷﯿﺌﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﻦ
1984 ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻧﻔﺮﻧﺲ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ‘ – ﻧﯿﺸﻨﻞ ﺭﺍﺋﭩﺲ ﭨﻮ ﻻﻳﭙﮫ ﻛﻨﻮﯾﻨﺸﻦ .‘ ﺍﺱ
ﮐﺎﻧﻔﺮﻧﺲ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺑﺮﻧﺎﺭﮈ ﻧﮯﺗﮭﯿﻨﺴﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﺳﻘﺎﻁ ﺣﻤﻞ ﮐﯽ
ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﻟﭩﺮﺍﺳﺎؤنڈ ﻓﻠﻢ ‘ﺳﺎﻟﭧ ﺳﻜﺮﻳﻢ )‘ﮔﻮﻧﮕﯽ ﭼﯿﺦ ( کی ﺟﻮ ﺗﻔﺼﯿﻼﺕ
بتائیں ، ﻭﮦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ہیں) ﺑﭽﮧ ﺩﺍﻧﯽ میں ﻭﮦ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﯽ ﺍﺏ 15 ﮨﻔﺘﮯ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ
ﮐﺎﻓﯽ ﭼﺴﺖ ﺗﮭﯽ .
آخری بادشاہ
اور پھر ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میکنزی بحری جہاز
میں بٹھا دیا گیا‘ یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچ گیا‘ شاہی خاندان
کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں‘ کیپٹن نیلسن ڈیوس
رنگون کا انچارج تھا‘ وہ بندر گاہ پہنچا‘ اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں
کو وصول کیا‘ رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا
کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا‘ نیلسن پریشان تھا‘ بہادر شاہ ظفر
قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا
مہمان کا رزق
ایک گاؤں میں ایک صاحب کی اپنی بیوی کے ساتھ کچھ ان بن ہو گئی۔ ابھی جھگڑا
ختم نہیں ہوا تھا کہ اسی اثناء میں ان کا مہمان آ گیا۔ خاوند نے اسے بیٹھک
میں بٹھا دیا اور بیوی سے کہا کہ فلاں رشتہ دار مہمان آیا ہے اس کے لیے
کھانا بناؤ۔وہ غصّے میں تھی کہنے لگی تمہارے لئے کھانا ہے نہ تمہارے مہمان
کے لئے۔وہ بڑا پریشان ہوا کہ لڑائی تو ہماری اپنی ہے،اگر رشتہ دار کو پتہ
چل گیا تو خواہ مخواہ کی باتیں ہو گی۔لہٰذا خاموشی سے آکر مہمان کے پاس
بیٹھ گیا۔
اتنے میں اسے خیال آیا کہ چلو بیوی اگر روٹی نہیں پکاتی تو سامنے والے ہمارے ہمسائے بہت اچھے ہیں،خاندان والی بات ہے،میں انہیں ایک مہمان کا کھانا پکانے کے لیے کہہ دیتا ہوں۔چنانچہ وہ ان کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میری بیوی کی طبیعت خراب ہے لہٰذا آپ ہمارے مہمان کے لئے کھانا بنا دیجئے۔انہوں نے کہا بہت اچھا،جتنے آدمیوں کا کہیں کھانا بنا دیتے ہیں۔وہ مطمئں ہو کر مہمان کے پاس آ کر بیٹھ گیا کہ مہمان کو کم از کم کھانا تو مل جائے گا جس سے عزت بھی بچ جائے گی۔
تھوڑی دیر کے بعد مہمان نے کہا:ذرا ٹھنڈا پانی تولا دیجئے۔ وہ اٹھا کہ گھڑے کا ٹھنڈا پانی لاتا ہوں۔اندر گیا تو دیکھا کہ بیوی صاحبہ تو زار و قطار رو رہی ہے۔ وہ بڑا حیران ہواکہ یہ شیرنی اور اس کے آنسو۔کہنے لگا کیا بات ہے؟ اس نے پہلے سے بھی زیادہ رونا شروع کر دیا۔کہنے لگی: بس مجھے معاف کر دیں۔وہ بھی سمجھ گیا کہ کوئی وجہ ضرور بنی ہے۔اس بچارے نے دل میں سوچا ہو گا کہ میرے بھی بخت جاگ گئے ہیں۔ کہنے لگا کہ بتاؤ تو سہی کہ کیوں رو رہی ہو؟ اس نے کہا کہ پہلے مجھے معاف کر دیں پھر میں آپ کو بات سناؤں گی۔خیر اس نے کہہ دیا کہ جو لڑائی جھگڑا ہوا ہے میں نے وہ دل سے نکال دیا ہے اور آپ کو معاف کردیا ہے۔
کہنے لگی:کہ جب آپ نے آکر مہمان کے بارے میں بتایا اور میں نے کہہ دیا کہ نہ تمہارے لئے کچھ پکے گا اور نہ مہمان کے لئے،چلو چھٹی کرو تو آپ چلے گئے ۔مگر میں نے دل میں سوچا کہ لڑائی تو میری اور آپ کی ہے، اور یہ مہمان رشتہ دار ہے،ہمیں اس کے سامنے یہ پول نہیں کھولنا چاہئے۔چنانچہ میں اُٹھی کہ کھانا بناتی ہوں۔جب میں کچن(باروچی خانہ) میں گئی تو میں نے دیکھا کہ جس بوری میں ہمارا آٹا پڑا ہوتا ہے،ایک سفید ریش آدمی اس بوری میں سے کچھ آتا نکال رہا ہے۔میں یہ منظر دیکھ کر سہم گئی۔ وہ مجھے کہنے لگا: اے خاتون!پریشان نہ ہو یہ تمہارے مہمان کا حصّہ تھا جو تمہارے آٹے میں شامل تھا۔اب چونکہ یہ ہمسائے کے گھر میں پکنا ہے،اس لئے وہی آٹا لینے کے لئے آیا ہوں۔
٭ مہمان بعد میں آتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس کا رزق پہلے بھیج دیتے ہیں۔
اتنے میں اسے خیال آیا کہ چلو بیوی اگر روٹی نہیں پکاتی تو سامنے والے ہمارے ہمسائے بہت اچھے ہیں،خاندان والی بات ہے،میں انہیں ایک مہمان کا کھانا پکانے کے لیے کہہ دیتا ہوں۔چنانچہ وہ ان کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میری بیوی کی طبیعت خراب ہے لہٰذا آپ ہمارے مہمان کے لئے کھانا بنا دیجئے۔انہوں نے کہا بہت اچھا،جتنے آدمیوں کا کہیں کھانا بنا دیتے ہیں۔وہ مطمئں ہو کر مہمان کے پاس آ کر بیٹھ گیا کہ مہمان کو کم از کم کھانا تو مل جائے گا جس سے عزت بھی بچ جائے گی۔
تھوڑی دیر کے بعد مہمان نے کہا:ذرا ٹھنڈا پانی تولا دیجئے۔ وہ اٹھا کہ گھڑے کا ٹھنڈا پانی لاتا ہوں۔اندر گیا تو دیکھا کہ بیوی صاحبہ تو زار و قطار رو رہی ہے۔ وہ بڑا حیران ہواکہ یہ شیرنی اور اس کے آنسو۔کہنے لگا کیا بات ہے؟ اس نے پہلے سے بھی زیادہ رونا شروع کر دیا۔کہنے لگی: بس مجھے معاف کر دیں۔وہ بھی سمجھ گیا کہ کوئی وجہ ضرور بنی ہے۔اس بچارے نے دل میں سوچا ہو گا کہ میرے بھی بخت جاگ گئے ہیں۔ کہنے لگا کہ بتاؤ تو سہی کہ کیوں رو رہی ہو؟ اس نے کہا کہ پہلے مجھے معاف کر دیں پھر میں آپ کو بات سناؤں گی۔خیر اس نے کہہ دیا کہ جو لڑائی جھگڑا ہوا ہے میں نے وہ دل سے نکال دیا ہے اور آپ کو معاف کردیا ہے۔
کہنے لگی:کہ جب آپ نے آکر مہمان کے بارے میں بتایا اور میں نے کہہ دیا کہ نہ تمہارے لئے کچھ پکے گا اور نہ مہمان کے لئے،چلو چھٹی کرو تو آپ چلے گئے ۔مگر میں نے دل میں سوچا کہ لڑائی تو میری اور آپ کی ہے، اور یہ مہمان رشتہ دار ہے،ہمیں اس کے سامنے یہ پول نہیں کھولنا چاہئے۔چنانچہ میں اُٹھی کہ کھانا بناتی ہوں۔جب میں کچن(باروچی خانہ) میں گئی تو میں نے دیکھا کہ جس بوری میں ہمارا آٹا پڑا ہوتا ہے،ایک سفید ریش آدمی اس بوری میں سے کچھ آتا نکال رہا ہے۔میں یہ منظر دیکھ کر سہم گئی۔ وہ مجھے کہنے لگا: اے خاتون!پریشان نہ ہو یہ تمہارے مہمان کا حصّہ تھا جو تمہارے آٹے میں شامل تھا۔اب چونکہ یہ ہمسائے کے گھر میں پکنا ہے،اس لئے وہی آٹا لینے کے لئے آیا ہوں۔
٭ مہمان بعد میں آتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس کا رزق پہلے بھیج دیتے ہیں۔
لوہار اور امام احمد بن حنبل
ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﮐﮯ ﭘﮍﻭﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﻮﮨﺎﺭ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ
.
ﺟﺐ ﻭﮦ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺪﺙ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ
۔ ﻟﻮﮨﺎﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺩﺭﺟﮧ ﻣﻼ ﮨﮯ
۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﮯ ۔ ﻭﮦ ﻣﺤﺪﺙ ﺑﮍﺍ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻡ ﺳﺎ ﺩﻧﯿﺎﺩﺍﺭ ﻟﻮﮨﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺗﻮ ﺩﯾﻦ ﻭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﭘﮭﯿﻼﺗﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﯿﺎ ۔
ﺍﺱ ﻣﺤﺪﺙ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻋﻠﻤﺎ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﺳﺐ ﻧﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻟﻮﮨﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﮨﻠﮧ ﺧﺎﻧﮧ ﺳﮯ ﭘﺘﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔
ﻭﮦ ﺍﻧﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ۔ ﺍﺱ ﻣﺤﺪﺙ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ﺑﯽ ﺑﯽ ﺁﭘﮑﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺍﻧﮑﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﺎﺹ ﻋﻤﻞ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﮑﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻡ ﺗﮭﺎ ۔
ﻟﻮﮨﺎﺭ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺎﺹ ﻋﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﺩﺍﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ ۔ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻭﮦ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﺩﻭ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﻋﻤﻞ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺁﺫﺍﻥ ﻭ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺗﮭﺎ
.
۔ ﺍﮔﺮ ﻟﻮﮨﮯ ﭘﮧ ﺿﺮﺏ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﺒﯽ ﺍﻧﮑﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﻭﭘﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺗﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ۔
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﮧ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮﺗﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮨﻢ ﭼﮭﺖ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﮍﻭﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﺣﺴﺮﺕ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﺁﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﮧ ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﭽﮫ ﭼﮭﭙﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺮ ﮨﻠﮑﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮬﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﮭﺐ ﮐﮭﺒﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﮯ ۔
ﺍﺱ ﻣﺤﺪﺙ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺩﺏ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﮍﭖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﻧﮯ ﺁﭘﮑﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﻨﺒﻞ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺩﺭﺟﮧ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ۔
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺁﺫﺍﻥ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﺫﺍﻥ ﮨﻮﺭﮨﯽ ،ﭘﮭﺮ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺟﺐ ﺁﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﭨﯽ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﮧ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ۔ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺁﺫﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﭩﺎﺭ ﭘﻠﺲ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ.
.
ﺟﺐ ﻭﮦ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺪﺙ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ
۔ ﻟﻮﮨﺎﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺩﺭﺟﮧ ﻣﻼ ﮨﮯ
۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﮯ ۔ ﻭﮦ ﻣﺤﺪﺙ ﺑﮍﺍ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻡ ﺳﺎ ﺩﻧﯿﺎﺩﺍﺭ ﻟﻮﮨﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺗﻮ ﺩﯾﻦ ﻭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﭘﮭﯿﻼﺗﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﯿﺎ ۔
ﺍﺱ ﻣﺤﺪﺙ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻋﻠﻤﺎ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﺳﺐ ﻧﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻟﻮﮨﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﮨﻠﮧ ﺧﺎﻧﮧ ﺳﮯ ﭘﺘﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔
ﻭﮦ ﺍﻧﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ۔ ﺍﺱ ﻣﺤﺪﺙ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ﺑﯽ ﺑﯽ ﺁﭘﮑﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺍﻧﮑﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﺎﺹ ﻋﻤﻞ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﮑﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻡ ﺗﮭﺎ ۔
ﻟﻮﮨﺎﺭ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺎﺹ ﻋﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﺩﺍﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ ۔ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻭﮦ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﺩﻭ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﻋﻤﻞ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺁﺫﺍﻥ ﻭ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺗﮭﺎ
.
۔ ﺍﮔﺮ ﻟﻮﮨﮯ ﭘﮧ ﺿﺮﺏ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﺒﯽ ﺍﻧﮑﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﻭﭘﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺗﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ۔
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﮧ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮﺗﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮨﻢ ﭼﮭﺖ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﮍﻭﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﺣﺴﺮﺕ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﺁﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﮧ ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﭽﮫ ﭼﮭﭙﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺮ ﮨﻠﮑﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮬﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﮭﺐ ﮐﮭﺒﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﮯ ۔
ﺍﺱ ﻣﺤﺪﺙ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺩﺏ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﮍﭖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﻧﮯ ﺁﭘﮑﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﻨﺒﻞ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺩﺭﺟﮧ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ۔
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺁﺫﺍﻥ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﺫﺍﻥ ﮨﻮﺭﮨﯽ ،ﭘﮭﺮ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺟﺐ ﺁﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﭨﯽ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﮧ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ۔ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺁﺫﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﭩﺎﺭ ﭘﻠﺲ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ.
قائد اعظم اور آٹھ آنے
دہلی میں دوران ملاقات سیٹھ حاجی محمد صدیق‘ مالک بمبئے کلاتھ ہاؤس نے
قائداعظم سے عرض کی کہ اب کے آپ لاہور تشریف لائیں تو ہماری دکان کو بھی
اپنے قدم میمنت لزوم سے زینت بخشیں۔ قائداعظم جو مسلمانوں کی بہتری و
بہبودی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے‘ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ لاہور میں
مسلمانوں اور وہ بھی میمن برادری کی ایک شایان شان دکان ہے۔ فرمانے لگے ،اب
کے لاہور آیا تو تمھاری دکان بھی ضرور دیکھوں گا۔
چناںچہ اپریل 1944ء میں جب وہ لاہور تشریف لائے تو ایک دن بارہ بج کر دس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا۔ دکان کے منیجر نے دس کروڑ مسلمانوں کے اس عظیم الشان قائد کے استقبال کے لیے جو کچھ بھی ہو سکتا تھا ،کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ دکان زربفت کپڑوں سے دلہن کی طرح سجائی گئی۔ شاندار چائے پارٹی کا انتظام کر کے دیگر مسلمان تاجروں کو بھی بلا لیا گیا۔ معائنے کے دوران انھوں نے چائنہ کارڈ اورپیور ریشم کے کپڑے بھی پسند فرمائے جو انھیں تحفتاً پیش کیے گئے۔
لیکن انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر ان کپڑوں کابل پیش کر دیا جائے تو وہ لے لیں گے کیونکہ کپڑے انھیں پسند ہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ انھیں بطور تحفہ قبول کر لیں‘ مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ آخر بل پیش کر دینے کے پختہ وعدے پر انھوں نے کپڑے رکھ لیے۔ ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ایک اچکن ہم سے سلوائی جائے۔ وہ اس شرط پر رضامند ہوئے کہ درزی اچھا ہو اور ناپ ڈیوس روڈ پر ممدوٹ ولا میں لیا جائے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ دکان پر ناپ نہیں دینا چاہتے تھے۔
دوسرے دن ماسٹر فیروز کو لے کر میں قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ناپ سے فارغ ہو کر ہم واپس آنے لگے توفرمایا کہ اچکن کے لیے حیدر آبادی بٹنوں کے سیٹ لے آنا۔ فرمائش کے مطابق دوسرے دن صبح دس بجے ہم ممدوٹ ولا پہنچے۔ بٹنوں کے سیٹ جو ہم ساتھ لائے تھے‘ اُن کو ایک نظر دیکھا اور چار سیٹ پسند کرکے الگ رکھ لیے۔ باقی واپس کر دیے۔ کہنے لگے، بل لاؤ۔ بل کے لیے وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اصرار کر چکے تھے۔
چونکہ ہم بل نہیں دینا چاہتے تھے‘ اس لیے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے‘ مگر شاید وہ ہمارا ارادہ سمجھ گئے۔ آج بل کے لیے قدرے سخت اور درشت لہجے میں مطالبہ کیا‘ کہنے لگے ’’میں ادھار لینے کا عادی نہیں۔ بل لاؤ۔ ورنہ کپڑے واپس کر دیے جائیں گے۔‘‘
میں نے منیجر سے کہا کہ یہاں ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔ بل دینا ہی پڑے گا۔ ورنہ وہ سارے کپڑے لوٹا دیں گے۔ منیجر نے خاصا رعایتی بل بنا کر دیا جو آدھے سے بھی کم قیمت پر مشتمل تھا۔ میں نے جا کر خدمت میں پیش کر دیا جسے دیکھ کر مسکرائے‘ کہنے لگے: ’’یہ بل مناسب نہیں ‘ تم نے قیمتیں جان بوجھ کر کم لگائی ہیں۔‘‘ میں نے کہا‘ منیجر نے آپ کو خاص رعایت دی ہو گی۔ کہنے لگے : ’’رعایت کی اور بات ہے۔ یہ رعایت سے مختلف صورت ہے۔ تم بل درست کر کے لاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر بل واپس کر دیا۔ اس کے بعد میں نے بٹن والے کا بل پیش کیا‘ جو دس روپے کی مالیت پر مشتمل تھا۔
بل دیکھ کر فرمایا: ’’بھئی واہ۔ ایک سیٹ میں تو تین تین بٹن کم ہیں‘ لیکن بل تم نے پورے کا بنا دیا۔‘‘ یہ کہنا درست تھا۔ ایک سیٹ میں بٹن کم تھے۔ لیکن بل میں نے اس خیال سے دیکھا نہ تھا۔ دکاندار نے بھی اس کی پروا نہ کی تھی۔ بہرحال بل کو درستی کے لیے واپس لانا پڑا۔
لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ آخر کیا بات ہے کہ ایک طرف تو سیکڑوں روپے کی رعایت کو بھی یہ شخص قبول نہیں کرتا۔ دوسری جانب تین بٹنوں کے آٹھ آنے بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں؟
چناںچہ اپریل 1944ء میں جب وہ لاہور تشریف لائے تو ایک دن بارہ بج کر دس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا۔ دکان کے منیجر نے دس کروڑ مسلمانوں کے اس عظیم الشان قائد کے استقبال کے لیے جو کچھ بھی ہو سکتا تھا ،کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ دکان زربفت کپڑوں سے دلہن کی طرح سجائی گئی۔ شاندار چائے پارٹی کا انتظام کر کے دیگر مسلمان تاجروں کو بھی بلا لیا گیا۔ معائنے کے دوران انھوں نے چائنہ کارڈ اورپیور ریشم کے کپڑے بھی پسند فرمائے جو انھیں تحفتاً پیش کیے گئے۔
لیکن انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر ان کپڑوں کابل پیش کر دیا جائے تو وہ لے لیں گے کیونکہ کپڑے انھیں پسند ہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ انھیں بطور تحفہ قبول کر لیں‘ مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ آخر بل پیش کر دینے کے پختہ وعدے پر انھوں نے کپڑے رکھ لیے۔ ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ایک اچکن ہم سے سلوائی جائے۔ وہ اس شرط پر رضامند ہوئے کہ درزی اچھا ہو اور ناپ ڈیوس روڈ پر ممدوٹ ولا میں لیا جائے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ دکان پر ناپ نہیں دینا چاہتے تھے۔
دوسرے دن ماسٹر فیروز کو لے کر میں قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ناپ سے فارغ ہو کر ہم واپس آنے لگے توفرمایا کہ اچکن کے لیے حیدر آبادی بٹنوں کے سیٹ لے آنا۔ فرمائش کے مطابق دوسرے دن صبح دس بجے ہم ممدوٹ ولا پہنچے۔ بٹنوں کے سیٹ جو ہم ساتھ لائے تھے‘ اُن کو ایک نظر دیکھا اور چار سیٹ پسند کرکے الگ رکھ لیے۔ باقی واپس کر دیے۔ کہنے لگے، بل لاؤ۔ بل کے لیے وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اصرار کر چکے تھے۔
چونکہ ہم بل نہیں دینا چاہتے تھے‘ اس لیے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے‘ مگر شاید وہ ہمارا ارادہ سمجھ گئے۔ آج بل کے لیے قدرے سخت اور درشت لہجے میں مطالبہ کیا‘ کہنے لگے ’’میں ادھار لینے کا عادی نہیں۔ بل لاؤ۔ ورنہ کپڑے واپس کر دیے جائیں گے۔‘‘
میں نے منیجر سے کہا کہ یہاں ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔ بل دینا ہی پڑے گا۔ ورنہ وہ سارے کپڑے لوٹا دیں گے۔ منیجر نے خاصا رعایتی بل بنا کر دیا جو آدھے سے بھی کم قیمت پر مشتمل تھا۔ میں نے جا کر خدمت میں پیش کر دیا جسے دیکھ کر مسکرائے‘ کہنے لگے: ’’یہ بل مناسب نہیں ‘ تم نے قیمتیں جان بوجھ کر کم لگائی ہیں۔‘‘ میں نے کہا‘ منیجر نے آپ کو خاص رعایت دی ہو گی۔ کہنے لگے : ’’رعایت کی اور بات ہے۔ یہ رعایت سے مختلف صورت ہے۔ تم بل درست کر کے لاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر بل واپس کر دیا۔ اس کے بعد میں نے بٹن والے کا بل پیش کیا‘ جو دس روپے کی مالیت پر مشتمل تھا۔
بل دیکھ کر فرمایا: ’’بھئی واہ۔ ایک سیٹ میں تو تین تین بٹن کم ہیں‘ لیکن بل تم نے پورے کا بنا دیا۔‘‘ یہ کہنا درست تھا۔ ایک سیٹ میں بٹن کم تھے۔ لیکن بل میں نے اس خیال سے دیکھا نہ تھا۔ دکاندار نے بھی اس کی پروا نہ کی تھی۔ بہرحال بل کو درستی کے لیے واپس لانا پڑا۔
لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ آخر کیا بات ہے کہ ایک طرف تو سیکڑوں روپے کی رعایت کو بھی یہ شخص قبول نہیں کرتا۔ دوسری جانب تین بٹنوں کے آٹھ آنے بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں؟
پیاز کے آنسو
وه کچن میں کهڑی پیاز کاٹ رهی تهی __
میری اهٹ سن کر مڑی تو میں نے دیکها _
اسکی آنکهیں بلکل سرخ تهیں اور مسلسل انسو بہہ رهے تهے
میں نے همدردی سے پوچها
رو رهی هو؟
بهیگی انکهوں سے هنستے هوئی بولی نهیں تو __
پیاز کاٹ رهی تهی بہت هی کڑوا هے __
میں نے کہا خالہ امی بلا رهی هیں رشتہ دیکهنے وه لوگ ا چکے هیں _
ٹهیک هے _اس نے پہلے انکهیں صاف کیں اور پهر ٹرے میں کولڈ ڈرنک فروٹ وغیره رکهکر دوپٹہ ٹهیک سے اوڑها اور باهر کی طرف چل دی _
میں نے اسکے جانے کے بعد ٹیبل پہ پڑے پیاز کی طرف دیکها جو ادها کٹا هوا تها
باقی ادهے پیاز کو میں کاٹنے لگا __
اور ایک حیرت کا جهٹکا مجهے تب لگا جب پورا پیاز کٹ گیا اور نہ میری انکهیں جلیں نہ ان میں پانی ایا __
پیاز تو بلکل بهی کڑوا نهیں هے ..
میں نے اسکے قدموں کی آهٹ سن کر مڑ کے دیکها .
تو پیکٹ سے بسکٹ نکال کر پلیٹ میں رکهتے هوئے اسکے هاته ایک لمحے کو رک گئے .
اس نے اپنی سرخ انکهیں میری انکهوں میں ڈال کر بهیگے لہجے میں دهیرے سے سرگوشی والے انداز میں کہا پیاز تو کڑوا نهیں هوتا عمر بهائی عورت کی زندگی کڑوی هوتی.__
کیا هوا یار زندگی کو؟
اچهی بهلی تو هے
والدین_ بہن بهائی اچهی تعلیم عزت اعلی فیملی زندگی کی هر سہولت __
پهر یہ زندگی سے گلہ ناشکری نهیں ؟
عمر بهائی _
اپ نهیں سمجهیں گے اس نے چائے کیتلی میں ڈالتے هوئے مایوسی سے کہا .
تو سمجهاو نا ،میں نے پلیٹ سے بسکٹ اٹها کر منہ میں ڈالتے هویے پوچها _
اس نے مجهے پلٹ کر دیکها اور بولی اپ میرے ساته ائیں . وه چائے لے کر ڈرائینگ روم میں چلی گئی اور میں کهڑکی میں کهڑا اندر کا منظر دیکهنے لگا .
موٹی موٹی تین عورتیں صوفوں پہ بیٹهی قصایئوں والی نظروں سے نادیہ کو دیکه رهی تهیں میں کمرے سے باهر کهڑا تها مگر وه نظروں کی چبهن مجهے بهی بے چین کر گئی.
خالہ بار بار اصرار کر کے انکی پلیٹیں بهر رهی تهیں .
سر جهکایے کسی بےجان مورت کی طرح ساکت بیٹهی نادیہ پہ مجهے بہت ترس ا رها تها .
بہن اپکے اپنے خاندان مین کوئی رشتہ نهیں ؟خاتون نے تهل تهل کرتے وجود کو سنبهالتے هوئے چبهتے لہجے میں سوال کیا .
خالہ نے سادگی سے کہا جی بہت سے بچے هین فیملی میں .
اچها یہ لڑکا کون تها جس نے همیں دروازه کهولا .
وه میرے بارے مین پوچه رهی تهیں .
الله رکهے بهانجا هے میرا .CSS کیا هے ابهی
انشاالله ٹریننگ پہ جلدی چلا جائے گا _
خالہ کے لہجے مین محبت هی محبت تهی .
دیکهو بہن اگر خاندان میں اتنے اچهے لڑکے هیں .
تو اپکی بیٹی کے لیے رشتے کروانے والی ماسی کیوں کوششیں کر رهی هے ؟
ناراض نہ هونا میں تو سیدهی بات کرتی هوں پلیٹوں پہ هاته صاف کرتی موٹی عورت کو اس بات سے کوئی غرض نهیں تهی کہ اسکی ان باتوں سے خالہ اور نادیہ پہ کیا گزر رهی هے .
خاندان والوں پہ بیٹیوں کے گن کهلے هوتے هین اگر کسی اچهی بهلی نظر انے والی لڑکی کو کوئی رشتہ نهین مل رها هوتا خاندان مین تو اسکا مطلب یہ هے کہ لڑکی میں کچه گڑ بڑ هے __
نادیہ اڑی اڑی سی رنگت اور کانپتے هاتهوں سے ٹرے پکڑے باهر نکلی .
میری طرف اک شکایتی نظر ڈالی اور کچن میں گهس گئی .
خواتین باهر نکل رهی تهین .
ارے شاهده اتنا خوبصورت اور پڑهالکها بهانجا گهر میں هے .
تو اچهی نهیں هوگی نا لڑکی اسی لیے تو __
مجه میں اور سننے کی همت نہ رهی اور مین اسکے پیچهے کچن میں ا گیا .
وه هاته میں پیاز پکڑے کهڑی تهی اور انسووں کا اک سیلاب تها جو گالوں پہ بہہ رها تها.
میں نے پیاز اسکے هاته سے لے لیا .
پیاز تو کڑوا نهیں هے .
زندگی کڑوی هے نا؟
تو یہ زندگی مجهے دے دو __
میں نے اسکے انسو اپنی هتهیلیوں پہ سجا لیے .
یہ بہت قیمتی موتی هین
انهیں ضایع نہ کرو .
وه حیرت اور
بے یقینی سے مجهے دیکه رهی تهی .
اور میں دل هی دل میں خود کو کوس رها تها
امی کے بار بار کہنے کے باوجود میں نے اس رشتے کے لیے حامی نهیں بهری تهی اور خاندان سے باهر کی رٹ لگا رکهی تهی .حالانکہ شریک خیات کے لیے کسی بهی لڑکی میں جو خوبیاں چاهیے هوتی هیں وه سب نادیہ میں موجود تهیں _
میں نے هی کیا خاندان کا جو لڑکا بهی کسی اچهے مقام پہ پہنچتا وه فیملی سے باهر شادی کی ضد لگا لیتا تها .اور اسطرح جانے کتنی لڑکیاں اچهے رشتوں کی تلاش میں لوگوں کے طعنے اور اپنی کردار کشی برداشت کرنے پہ مجبور . پیاز کاٹنے کے بہانے انسو بہاتی رهتی تهیں
میری اهٹ سن کر مڑی تو میں نے دیکها _
اسکی آنکهیں بلکل سرخ تهیں اور مسلسل انسو بہہ رهے تهے
میں نے همدردی سے پوچها
رو رهی هو؟
بهیگی انکهوں سے هنستے هوئی بولی نهیں تو __
پیاز کاٹ رهی تهی بہت هی کڑوا هے __
میں نے کہا خالہ امی بلا رهی هیں رشتہ دیکهنے وه لوگ ا چکے هیں _
ٹهیک هے _اس نے پہلے انکهیں صاف کیں اور پهر ٹرے میں کولڈ ڈرنک فروٹ وغیره رکهکر دوپٹہ ٹهیک سے اوڑها اور باهر کی طرف چل دی _
میں نے اسکے جانے کے بعد ٹیبل پہ پڑے پیاز کی طرف دیکها جو ادها کٹا هوا تها
باقی ادهے پیاز کو میں کاٹنے لگا __
اور ایک حیرت کا جهٹکا مجهے تب لگا جب پورا پیاز کٹ گیا اور نہ میری انکهیں جلیں نہ ان میں پانی ایا __
پیاز تو بلکل بهی کڑوا نهیں هے ..
میں نے اسکے قدموں کی آهٹ سن کر مڑ کے دیکها .
تو پیکٹ سے بسکٹ نکال کر پلیٹ میں رکهتے هوئے اسکے هاته ایک لمحے کو رک گئے .
اس نے اپنی سرخ انکهیں میری انکهوں میں ڈال کر بهیگے لہجے میں دهیرے سے سرگوشی والے انداز میں کہا پیاز تو کڑوا نهیں هوتا عمر بهائی عورت کی زندگی کڑوی هوتی.__
کیا هوا یار زندگی کو؟
اچهی بهلی تو هے
والدین_ بہن بهائی اچهی تعلیم عزت اعلی فیملی زندگی کی هر سہولت __
پهر یہ زندگی سے گلہ ناشکری نهیں ؟
عمر بهائی _
اپ نهیں سمجهیں گے اس نے چائے کیتلی میں ڈالتے هوئے مایوسی سے کہا .
تو سمجهاو نا ،میں نے پلیٹ سے بسکٹ اٹها کر منہ میں ڈالتے هویے پوچها _
اس نے مجهے پلٹ کر دیکها اور بولی اپ میرے ساته ائیں . وه چائے لے کر ڈرائینگ روم میں چلی گئی اور میں کهڑکی میں کهڑا اندر کا منظر دیکهنے لگا .
موٹی موٹی تین عورتیں صوفوں پہ بیٹهی قصایئوں والی نظروں سے نادیہ کو دیکه رهی تهیں میں کمرے سے باهر کهڑا تها مگر وه نظروں کی چبهن مجهے بهی بے چین کر گئی.
خالہ بار بار اصرار کر کے انکی پلیٹیں بهر رهی تهیں .
سر جهکایے کسی بےجان مورت کی طرح ساکت بیٹهی نادیہ پہ مجهے بہت ترس ا رها تها .
بہن اپکے اپنے خاندان مین کوئی رشتہ نهیں ؟خاتون نے تهل تهل کرتے وجود کو سنبهالتے هوئے چبهتے لہجے میں سوال کیا .
خالہ نے سادگی سے کہا جی بہت سے بچے هین فیملی میں .
اچها یہ لڑکا کون تها جس نے همیں دروازه کهولا .
وه میرے بارے مین پوچه رهی تهیں .
الله رکهے بهانجا هے میرا .CSS کیا هے ابهی
انشاالله ٹریننگ پہ جلدی چلا جائے گا _
خالہ کے لہجے مین محبت هی محبت تهی .
دیکهو بہن اگر خاندان میں اتنے اچهے لڑکے هیں .
تو اپکی بیٹی کے لیے رشتے کروانے والی ماسی کیوں کوششیں کر رهی هے ؟
ناراض نہ هونا میں تو سیدهی بات کرتی هوں پلیٹوں پہ هاته صاف کرتی موٹی عورت کو اس بات سے کوئی غرض نهیں تهی کہ اسکی ان باتوں سے خالہ اور نادیہ پہ کیا گزر رهی هے .
خاندان والوں پہ بیٹیوں کے گن کهلے هوتے هین اگر کسی اچهی بهلی نظر انے والی لڑکی کو کوئی رشتہ نهین مل رها هوتا خاندان مین تو اسکا مطلب یہ هے کہ لڑکی میں کچه گڑ بڑ هے __
نادیہ اڑی اڑی سی رنگت اور کانپتے هاتهوں سے ٹرے پکڑے باهر نکلی .
میری طرف اک شکایتی نظر ڈالی اور کچن میں گهس گئی .
خواتین باهر نکل رهی تهین .
ارے شاهده اتنا خوبصورت اور پڑهالکها بهانجا گهر میں هے .
تو اچهی نهیں هوگی نا لڑکی اسی لیے تو __
مجه میں اور سننے کی همت نہ رهی اور مین اسکے پیچهے کچن میں ا گیا .
وه هاته میں پیاز پکڑے کهڑی تهی اور انسووں کا اک سیلاب تها جو گالوں پہ بہہ رها تها.
میں نے پیاز اسکے هاته سے لے لیا .
پیاز تو کڑوا نهیں هے .
زندگی کڑوی هے نا؟
تو یہ زندگی مجهے دے دو __
میں نے اسکے انسو اپنی هتهیلیوں پہ سجا لیے .
یہ بہت قیمتی موتی هین
انهیں ضایع نہ کرو .
وه حیرت اور
بے یقینی سے مجهے دیکه رهی تهی .
اور میں دل هی دل میں خود کو کوس رها تها
امی کے بار بار کہنے کے باوجود میں نے اس رشتے کے لیے حامی نهیں بهری تهی اور خاندان سے باهر کی رٹ لگا رکهی تهی .حالانکہ شریک خیات کے لیے کسی بهی لڑکی میں جو خوبیاں چاهیے هوتی هیں وه سب نادیہ میں موجود تهیں _
میں نے هی کیا خاندان کا جو لڑکا بهی کسی اچهے مقام پہ پہنچتا وه فیملی سے باهر شادی کی ضد لگا لیتا تها .اور اسطرح جانے کتنی لڑکیاں اچهے رشتوں کی تلاش میں لوگوں کے طعنے اور اپنی کردار کشی برداشت کرنے پہ مجبور . پیاز کاٹنے کے بہانے انسو بہاتی رهتی تهیں
قصور وار عورت
دوپہر کا وقت تھا۔ گاؤں کی گلیاں سنسان ہی تھیں۔ ایک شخص نے دیوار پھلانگی اور صحن میں جا کر اندر سے کنڈی کھول دی۔ پانچوں افراد اس گھر کے صحن میں داخل ہو گئے۔ اور اسلحہ لہراتے ہوئے کمرے میں گھس گئے۔ اکیلی عورت گھبرا کر چیخیں مارنے لگی۔ ایک شخص نے اسکے سر میں بندوق کا بٹ پارا اور اسے گھسیٹتے ہوئے صحن میں لایا۔ پھر لاتوں گھوسوں کی بارش کر دی۔ اس جواں سال عورت کو بے دریغ مارنے کے بعد اسے گھسیٹ کر باہر گلی میں لے آیا۔ لوگ گھروں سے نکل آئے لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ انہیں روکتا۔ وجہ ساف تھی۔ وہ عورت ایک رقاصہ تھی۔ شادی بیاہ پر ناچ گانا کر کے کمانے والی وہ عورت گاؤں والوں کو ایک آنکھ نہ بھاتی۔ پچھلے دنوں ساتھ والے گاؤں کے نمبردار کے بیٹے کی شادی میں اسے پوری رات نچایا گیا مگر پیسے نہیں دیے گئے۔ نمبردار کے بیٹوں سے ان بن ہو گئی تو اس نے تھانے جا کر شکایت کر دی۔ آج وہی لڑکے اسے زدوکوب کر رہے تھے۔ سالی میرے پر کیس کرے گی؟ ایک شخص غرایا اور اسکے ہاتھ سے دوپٹہ چھین کر دور پھینک دیا۔ پھر اسے کلاشنکوف سے ایک ضرب لگائی اور وہ بیچاری اوندھے منہ زمین پر گر گئی۔ ایک شخص نے اسکے سر پہ زوردار ٹھڈا لگایا۔ پھر اسے پلٹ دیا۔ خون آلود چہرہ مٹی میں سنا ہوا تھا۔ دوسرے شخص نے مٹھی میں خاک بھری اور اسکے چہرے پہ مل دی۔ ایک اور شخص نے نالی میں ہاتھ ڈالا اور غلاظت نکال کر اس عورت کے چہرے پہ مل دی۔ خون الودہ چہرہ اب کالا ہو گیا تھا۔ اس نے بندوق ایک جانب رکھی اور اس عورت کے گریبان کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اس ایک ہی وار میں اسکی قمیض تار تار ہو چکی تھی۔ اسے کھڑا کر دیا گیا اور گاؤں والے اسکا تماشا دیکھنے لگے۔ اسکے سینے پر باقی بچا کپڑا بھی نوچ کر پھینک دیا گیا۔ وہ نیم بے ہوش عورت کھلی آنکھوں سے گاؤں والوں کو دیکھ رہی تھی۔ اللہ ، اللہ کی صدا اسکے حلق میں دب کر رہ گئی تھی۔ اس شخص نے اسکے بالوں کو زور سے پکڑا اور دوسرے شخص نے اسکی شلوار اتار کر اسکے پیروں میں گرا دی۔ وہ اب برہنہ تھی۔ سبھی اسکی عزت کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اسی پر اکتفا نہ ہوا بلکہ اسے گاؤں کی گلیوں میں گھمایا گیا اور اسکے برہنہ جسم کا نطارہ گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے نے کیا۔ اس دوران ہوائی فائرنگ کی وجہ سے لوگ بھی خوف و ہراس میں مبتلا رہے۔ بالآخر اس عورت کو اسکے دروازے پر چھوڑ کر وہ لوگ ہوائی فائرنگ کرتے فرار ہو گئے۔
ایک زندہ لاش مٹی اور غلاظت میں سنی ہوئی، بے لباس ، بے عزت ، اپنی سانسوں کو بحال کرتی ہوئی اٹھی اور چپ چاپ اندر جا کر کنڈی لگا دی۔ اگلے روز اسی گھر سے ایک لاش نکلی۔ ایک زندہ لاش۔ میک اپ زدہ چہرہ لیے۔
آج اسکا ارادہ کچھ اور تھا۔ نمبردار کے بیٹوں سے بدلا لینے کے لیے اس نے تھانے جا کر اپنا جسم رشوت کے طور پیش کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ آج وہ ایک رقاصہ سے ایک فاحشہ بن گئی تھی۔ جسم فروش بن گئی تھی۔ آج وہ جان گئی تھی کہ معاشرے کا ہر مرد درندہ ہے۔ اور ہر عورت اسے اپنی تسکین کا ایک ذریعہ دکھائی دیتی ہے۔ جب معاشرے کے مرد سفاک ہو جائیں، تو معاشرے کی عورتیں بے باک ہو ہی جاتی ہیں۔
ایک زندہ لاش مٹی اور غلاظت میں سنی ہوئی، بے لباس ، بے عزت ، اپنی سانسوں کو بحال کرتی ہوئی اٹھی اور چپ چاپ اندر جا کر کنڈی لگا دی۔ اگلے روز اسی گھر سے ایک لاش نکلی۔ ایک زندہ لاش۔ میک اپ زدہ چہرہ لیے۔
آج اسکا ارادہ کچھ اور تھا۔ نمبردار کے بیٹوں سے بدلا لینے کے لیے اس نے تھانے جا کر اپنا جسم رشوت کے طور پیش کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ آج وہ ایک رقاصہ سے ایک فاحشہ بن گئی تھی۔ جسم فروش بن گئی تھی۔ آج وہ جان گئی تھی کہ معاشرے کا ہر مرد درندہ ہے۔ اور ہر عورت اسے اپنی تسکین کا ایک ذریعہ دکھائی دیتی ہے۔ جب معاشرے کے مرد سفاک ہو جائیں، تو معاشرے کی عورتیں بے باک ہو ہی جاتی ہیں۔
ضعیف العُمر شخص
میرے بابا جی قدّس سرہّ العزیز کی خدمت میں ایک بُہت ضعیف العُمر شخص حاضر
ہوا اور اِس خواہش کا اظہار کیا کہ میں حافظِ قرآن بننا چاہتا ہوں۔ میرے
بابا جی اور حاضرینِ مجلس نے یہ دیکھا کہ اس بوڑھے میں صحیح سے کھڑا ہونا
تو کجا، ٹھیک سے بات کرنے کی بھی سَکت نہیں۔ آنکھوں کے اندر باہر کے چاروں
شیشے ایسے بُری طرح دُھندلائے ہوئے تھے کہ سامنے کھڑا شخص بھی اُسے کوسوں
دُوربھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ پوپلے مُنہ میں صرف اور صرف ایک گلی سی زبان
بچی تھی، وہ بھی اکثر حلقوم کی جانب کھنچی رہتی۔ دُوسرے کی بات البتّہ ہاتھ
کا بھونپو سا بنا کر تھوڑی بہت سُن لیتا تھا۔ یہ حالتِ ناتوانی اور شوقِ
حفظِ قرآنی دیکھ کر بابا جی نے تبسُم فرماتے ہوئے اُسے پاس بٹھایا،
پوچھا۔“بابا جی! آپ کو اِس عُمر میں، جب انسان گھوڑ ے پہ بیٹھنے کی تیاری
کرتا ہے، یہ قرآن شریف کےحفظ کرنے کا خیال کیونکر آیا۔۔۔؟”بوڑھے آدمی نے
ٹھہر ٹھہر، سوچ سوچ کر جواب دیا۔“پیر جی! بس جی، حیاتی ساری ایسے ہی گنوادی
ہے۔ ایک دِن میرے یار عِلمے نے مجھے نصیحت کی کہ چراغ دین، تُو مرنے دَندے
لگا ہوا ہے، سُنا ہے کہ قبر میں بڑا اندھیرا ہوتا ہے۔ یار! تیرا نام چراغ
دین ہے، میرے دل میں آیا ہے تو قبر میں کوئی ایسا چراغ لے جائے جس سے تیری
قبر کا اندھیرا دُور ہوجائے اورتجھے وہاں کوئی تکلیف وغیرہ نہ ہو۔۔۔ پیر
جی! اس کی یہ بات میرے دل میں کُھب سی گئی۔ میں نے اپنے پِنڈ کے “مولبی”
رمضان ملوانے سے بات کی۔ اس نے بتایا کہ قرآن پاک کا حافظ اپنی اگلی پچھلی
سات سات پُشتوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے اور چونکہ مرنے والے کے سینے میں
قرآن مجید ہوتا ہے اس لئے اس کی قبر میں نُور برستا رہتا ہے کیونکہ قرآن
بھی چراغِ دین ہے۔۔۔”بوڑھے بابے کی یہ بھولی بھالی، سیدھی سادی باتیں سُن
کر بابا جی اور حاضرینِ مجلس بہت محظوظ ہوئے۔۔۔ بابا جی نے فرمایا۔“بھائی،
بزرگا! یہ تمہارے یار نے تو تمہیں بالکل بڑے فائدے اور عِلم کی بات بتائی،
قرآن مجید تو واقعی چراغِ دین اور نورِ ہدایت ہے۔ جس نے اسے پکڑا، پڑھا،
سیکھا، حفظ کیا۔ پھر اسے سنبھالا اور اس کے مطابق عمل کیا، اس نے فلاح
پائی۔۔۔ اب بولو، کیا ارادے ہیں۔۔۔؟”وہ رَعشہ زدہ ہاتھ کا بھونپو کان پہ
دھرتے ہوئے بولا۔“پیر جی! ذرا اُچّی بولو، مینوں گھٹ سُنائی دیندا
اے۔۔۔”بابا جی نے بڑی نرمی سے ذرا بلند آہنگ میں پھر اپنی بات دہرائی۔ بابے
نے اپنے اُسی دیہاتی لہجے میں جواب دیا۔“پیر جی! ارادہ تو یہی لے کر آپ کے
قدموں میں پہنچا ہوں کہ آپ مجھے خدا واسطے چراغ دین بنا دیں۔ میں قرآن
شریف کا حافظ بننا چاہتا ہوں۔۔۔”بابا جی اب سنجیدگی سے پوچھنے لگے۔“بابا
جی، آپ نے ناظرہ تو پڑھا ہوگا۔۔۔؟”“نہیں جی، میں نے کج پڑھا ہوتا تو آپ کے
پاس کیوں آتا۔۔۔؟” بابے نے اسی ٹمپو میں جواب دیا۔بابے کے باقی انٹرویو سے
معلوم ہوا کہ اُسے نہ تو نماز آتی ہے اور نہ ہی کوئی آیت یا سورت۔۔۔ اور تو
اور کلمہ طیّبہ بھی زیر زَبر کی غلطی کے ساتھ محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم( کے آگے “سوہنا پاک رسول اللہ” پڑھتا ہے۔ بسم اللہ شریف بھی صحت سے
نہیں پڑھ سکتا۔ بابا جی نے جب ایسی عِلمی صورتحال دیکھی اور زبان، لہجہ،
یاد داشت وغیرہ کو بھی ناقابلِ بھروسہ پایا تو بابے کو مشورہ دیا کہ تم صرف
کلمہ شریف ہی اچھی طرح صحیح سے یاد کرلو اور ہر وقت اسی کا وِرد کیا کرو،
انشاء اللہ، تم چراغ دین بن جاؤگے اور اللہ مہربان ہوا تو قبر بھی روشن
رہیگی۔ اگلے جمعے کے روز مجھے آکر کلمہ پاک کا سبق سُنانا۔۔۔ بابا جی نے
کلمہ شریف پڑھا کر بابے کو رُخصت کردیا۔ اگلے جمعہ کے روز جب بابے نے آکر
کلمہ سُنایا تو وہی زیر زَبر کی غلطی اور وہی “سوہنا پاک رسول اللہ” کلمہ
میں موجود تھا۔۔۔ بابا جی سخت جُز بُز ہوئےکہ آٹھ دنوں کی دُہرائی اور
پکائی کے بعد بھی بابے کا کلمہ کچّے کا کچّا ہی رہا۔“بابا جی! کلمہ طیّبہ
کو صحیح اور دُرست مخرج کی ادائیگی کے ساتھ پڑھنا ہی دُرست اور ثواب ہے،
غلط یا بڑھا گھٹا کر پڑھنے سے گناہ ہوتا ہے۔۔۔”بابا جی نے دوبارہ زیر زَبر
کی غلطیاں صحیح کرائیں اور سوہنا پاک کے زائد الفاظ لگانے سے منع فرمایا۔۔۔
بابا پوپلے مُنہ سے کلمہ دہراتے ہوئے چلا گیا۔ اگلے جمعے نماز سے پہلے
بابا حاضر ہوگیا، آتے ہی ہاتھ کھڑے کردئیے۔“پیر جی زیر تے زَبر دی غلطی تو
ٹھیک ہو گئی ہے پر “سوہنا پاک” لگائے بغیر میں کلمہ شریف نہیں پڑھ سکتا،
میرے مُنہ سے خالی محمد رسول اللہ نکلتا ہی نہیں ہے۔۔۔ آپ کے بچے سلامت
رہیں، آپ اللہ کولوں مجھے سوہنا پاک لگا کر کلمہ پڑھنے کی اجازت لے دیں۔ بے
شک کہہ دیں کہ بابے چراغ دین دے مُونہوں خالی محمد رسول اللہ پَھبدا ای
نہیں۔۔۔”بابا جی اور ہم سب ہم نشیں بابے چراغ دین کا پوپلا مُنہ دیکھ رہے
تھے۔ بابا جی نے تیسری بار پھر بابے کو صحیح کلمہ پاک پڑھنے کی تلقین کر کے
رُخصت کردیا۔ اِس بار رُخصت ہوتے سَمے وہ بوڑھا کچھ دِل گرفتہ سا نظر آیا
تھا۔کچھ دنوں سے بابا جی کے دُشمنوں کے مزاج برہم تھے۔ مجالسِ خاص و عام
موقوف تھیں، کھانے پینے اور عبادات کے اوقات میں بھی خلل واقع تھا۔ روزانہ
آنے جانے والے احباب کے علاوہ ہم دو تین خادمِ خاص جنہیں بابا جی کے مزاج
میں خاصا دخل تھا، پریشان سے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟
ایسی کِسی میں جرات نہیں تھی کہ زبان کھول کر پُوچھ لیں، لے دے کر ایک صرف
میں ہی تھا جس پہ سب کی نظر تھی کہ میں ٹوہ لگاؤں کہ سرکار کے مزاج کیوں
برہم ہیں، نصیبِ دشمناں طبیعت پہ کیا بوجھ ہے؟ظہرانے کے فوراً بعد، قیلولے
سے پہلے میں اجازت لے کر حُجرے میں داخل ہوا۔ وہ فرشی نشست پہ نیم دراز سے
کسی کتاب کے مطالعہ میں مگن تھے، وعلیکم السلام کہتے ہوئے کتاب بند کردی
اور فرمایا۔“بابا چراغ دین کے پِنڈ جانا ہے۔۔۔”مسلسل اڑھائی گھنٹے تانگے پہ
سفر کے بعد جب ہم بابے کے پِنڈ پہنچے تو گاؤں کی مسجد میں عصر کی اذان ہو
رہی تھی۔ ہم سیدھے مسجد میں ہی چلے گئے۔ مسجد کے امام مولوی محمد رمضان کو
جب معلوم ہوا کہ بابا جی تشریف لائے ہیں تو اس نے اپنے ذرائع سے کانوں کان
پورے گاؤں میں یہ خبر اُڑا دی، دیکھتے ہی دیکھتے مسجدنمازیوں سے آسودہ
ہوگئی۔ بابا چراغ دین اور اس کا بیلی بابا عِلم دین بھی آئے۔ عورتیں،
بچّیاں، بوڑھیاں مسجد کے باہر پیپل کے درخت تلے جمع ہوگئیں۔ سُنّتوں سے سب
فارغ ہوئے تو مولوی صاحب نے بابا جی کی خدمت میں امامت کےلئے درخواست کی،
بابا جی نے متبسّم لہجے میں سب نمازیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔“اللہ کے
نیک بندوں! آج میں خود ایک ایسے اللہ کے بندے کے پیچھے نماز ادا کرنے کے
لئے یہاں تک آیا ہوں جو آپ کے گاؤں کا ہی وسیک ہے اور آپ سب اُس اللہ کے
بندے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اباگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اُس اللہ کے
بندے سے درخواست کروں کہ وہ ہماری امامت کرے۔۔۔”سب نمازیوں نے “سُبحان
اللہ’ سُبحان اللہ” کہتے ہوئے اپنی رضا مندی کا اظہار کردیا۔ تب بابا جی
اُٹھے اور بابے چراغ دین کے پاس پہنچے دونوں ہاتھوں سے اُٹھایا ساتھ لے کر
امامت کے مصلّےپہ لاکھڑا کیا، خود تکبیر کہنے کے لئے اس کےعقب میں کھڑے
ہوگئے۔ اب بابے چراغ دین کا یہ عالم کہ وہ باؤلوں کی طرح اِدھر اُدھر سب کو
دیکھ رہا ہے۔۔۔ اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اُس کے ساتھ کیا
ہورہا ہے؟۔۔۔ بابا جی نےاُسے کہا۔“بابا چراغ دین! آج ہم سب تمہاری اقتداء
میں نماز اداکرینگے۔۔۔ میں تکبیر پڑھتا ہوں، تم نماز شروع کراؤ۔۔۔”پھر وہی
بات کہ بابے چراغ دین کے پلّے کچھ نہیں پڑ رہا تھا کہ اُس کے ساتھ آج یہ
کیا ہو رہا ہے؟ اُس کے ساتھ تو ویسے ہی نمازی کھڑے ہونے سے اجتناب برتتے
تھے کہ جب جماعت قیام میں ہوتی تو بابا رکوع میں چلا جاتا، قعدے کے وقت وہ
سجدے میں پڑا ہوتا اور خدا جانے وہ کیا کچھ پڑھتا رہتا۔ اکثر وہ سجدے میں
پڑا پڑا خرّاٹے بھی لینے لگتا۔ نماز دُعا کے بعد نیک دِل نمازی اُسے بیدار
کر کے ہاتھ بازو تھامے گھر تک پہنچا آتے۔ اب اسی نیم مخبوط الحواس چراغ دین
کو بابا جی نے پورے گاؤں کے خورد و کبیر کی نماز کا “فرسٹ کیپٹن” بنا کر
مسجد کے “کاک پٹ” میں بٹھا دیا تھا۔ کوئی کیا بولتا، بابا جی کی حیثیتاور
مرتبے سے سب ہی واقف تھے۔۔۔ بابا جی نے تکبیر پڑھنی شروع کردی، ختم بھی
ہوگئی۔ اب بابا چراغ مُنہ کعبے کی طرف کرے۔ “اللہ اکبر” کہے تو مقتدی بھی
“اللہ اکبر” کہہ کر ہاتھ باندھیں مگر بابا چراغ دین تو رُخ نمازیوں کی جانب
کئے بِٹ بِٹ سب کو دیکھ رہا تھا۔ بابا جی نے اسکا رُخ قبلہ شریف کی جانب
موڑا، خود ہی اُس کے ہاتھ ناف پہ رکھوائے اور خود اللہ اکبر کہہ نیّت باند
لی۔ مقتدیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔۔۔ ایک منٹ، دو منٹ،پانچ منٹ۔ حتٰی کہ اتنا
وقت گذر گیا کہ کوئی مشّاق حافظ پورا پارہ ختم کر جائے۔ بابا چراغ دین آگے
کھڑا کبھی پیچھے دیکھنے لگتا، کبھی پنڈلیوں اور پاؤں کو کُھجلانے لگتا۔
بوڑھے، بیماروں اور بچّوں نے تو کبھی کے کھنگورے مارنے شروع کئے ہوئے تھے
مگر وہاں آگے سُننے اور ان اشاروں کو سمجھنے والا کون تھا، بابا چراغ دین!
جس کے دو قدم پہلو میں توپ داغی جائے تو اُسے پٹاخے کی آواز بھی سُنائی نہ
دے۔تین چار نمازی، نماز توڑ کر صفوں سے باہر نکلگئے اور کچھ وقت اِسی کشمکش
صبر و جبر میں گذر گیا۔ پھر پتہ نہیں، خدا نے کیا دِل میں ڈالی کہبابا
چراغ دین” اللہ اکبر” کہے بغیر رکوع میں چلا گیا۔اگر اس وقت ہمارے بابا جی
“اللہ اکبر” نہ کہتے تو پیچھے کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ آگے رکوع بھی ہو
چکا ہے۔۔۔ بہر حال، سب ہڑ بڑا کر رکوع میں چلے گئے۔ جب دس منٹ اسی طرح مرغا
بنے گذر گئے تو چند اور لوگ نماز توڑ کر مسجد میں سے نکل گئے۔ کھنگورے اور
مصنوعی کھانسی بدستور چل رہی تھی۔ پھر اللہ کا کرنا کچھ یوں ہوا، بابا
چراغ دین وہیں سے ہی سجدے میں چلا گیا بلکہ یوں کہئے لیٹ ہی گیا۔ مقتدی بھی
سجدے میں تھے اور امام بھی اور اب جیسے ان سب کو سجدے نے پکڑ لیا تھا۔
کُھسر پُھسر ہورہی ہے اور ایک دوسرے کہ کہنیاںماری جارہی ہیں۔ آخر کب تک
کوئی سجدے میں پڑا رہے؟ انسان ہے، فرشتہ تو ہے نہیں کہ سجدے میں پڑا ہے تو
قیامت تک وہیں پڑا ہے۔۔۔ اب پانچ ساتنفر اور کم ہو گئے۔ امام صاحب کے
خرّاٹوں کی آوازیں، مسجد کے سقادے تک سُنائی دے رہی تھیں۔دو چار اور ثقہ
قسم کے نمازی لاحول پڑھتے ہوئے نماز توڑ کر گھروں کو نکل گئے۔ اب پچھلی
صفوں کی حالت مکئی کی اس کچّی پکّی چھلّی )بھٹے( جیسی تھی جس کے چَھدرے
چَھدرے دانے ہوتے ہیں۔صرف پہلی صف جس میں کچھ معزّزینِ گاؤں اور بابا جی
سرکار تھے، دائیں بائیں اور آخری ایک دو نمازی غائب ہو جانے کے با وجود
سالم تھی۔۔۔ کہیں پیچھے سے کسی بچّے کی آواز اُبھری۔“اوئے بابا دینیاں
مرگیا ایں یا جیونیاں ایں۔۔۔؟”ہمارے بابا جی نے اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے
سے سر اُٹھایا، سلام پھیر کر نماز توڑ دی۔ پھربلند آواز سے “انا للہ واِنا
اِلیہ رَاجعون” پڑھا۔۔۔ عشاء کے بعد بابا چراغ دین کی نمازِ جنازہ بابا جی
نے پڑھائی۔ اپنے گاؤں کے علاوہ نزدیک و دُور کے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔
بڑے بوڑھوں نے کہا آج تک اِس علاقے میں کسی انسان کا اتنا بڑا جنازہ نہیں
دیکھا گیا۔ دفن کے وقت بابا جی نے خود اپنے ہاتھوں سے مٹّی دی اور دُعا کے
بعد لوگوں سے کہا۔“لوگوں! تم کیا جانو کہ تمہارے درمیان سے آج کون سی ہستی،
عالمِ بالا کی جانب مراجعت کرگئی ہے۔۔۔ اَن پڑھ، دیہاتی سا بابا چراغ دین
جسے نماز آتیتھی اور نہ کلمہ شریف صحیح سے پڑھا جاتا تھا۔ اسے کلمہ شریف
پڑھتے وقت” سوہنا پاک”کی اضافت کے ساتھ “محمد رسول اللہ” کہنا اچھا لگتا
تھا۔ بس اسی سوہنے پاک محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کے صدقے میں ہی اللہ نے
اپنے اس سادےمُرادے انسان کو بخشش کا وہ رُتبہ عطا فرما دیا جسکی خواہش ولی
اور قُطب کیا کرتے ہیں۔۔۔ بے شک، اللہ پاک کو اخلاص ہی پسند ہے۔ کسی کی
غلط ملط اَدا، سادگی، بھولپن، نادانستگی میں بے اَدبی، بے تکلّفی اور بے
عِلمی بھی جس میں اِخلاص اور نیّتکی پاکیزگی شامل ہو۔ اللہ پاک کو ایسی
پسند آتی ہے کہ وہ اُسے شرفِ بخشش عطا کر دیتا ہے اور کہیںبڑے بڑے عابدوں،
پر ہیز گاروں اور عاملوں کاملوں کو اُن کے غرور، ریا، تکبّر، عِلم یا پرہیز
گاری کے ذراسے زعم پہ انہیں قعرِ مذلّت میں پھینک دیتا ہے۔۔۔ یاد رکھوکہ
اللہ کے ہاں ادنٰی و اعلٰی صرف اس کے اِخلاص، تقوٰی، مخلوق کی خدمت سے اور
اس کے پیارے محبوب )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( سے محبت کے مراحل سے گذرنے کے
بعد تعیّن کئے جاتے ہیں۔حسب و نسب، دستار و کلاہ۔ عِلم، داڑھیاں، نمازیں،
حج، منصب وغیرہ سب کچھ بیکار اور بے فائدہ ہیںاگر اخلاص موجود نہیں ہے۔ ہر
وقت اللہ پاک سے اسکا فضل و کرم طلب کرتے رہا کرو۔ وہ تمہاری عبادتوں اور
ریاضتوں سے بے نیاز ہے، اس سے اپنی پر ہیز گاریوں اور نمازوں کا اَجر مت
مانگو۔ اپنے آپکو گنہگار اور گندہ سمجھتے ہوئے صرف اس سے، اس کی رحمت اور
توفیقِ بندگی چاہو۔۔۔”
Tuesday, August 2, 2016
حُسنِ خا تمہ
حضرتِ سیدنااما م ابومحمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد فرماتے ہیں: ''تین زاہد حج
کے سال فقط اللہ عزَّوَجَلَّ کے بھروسے پر زادِراہ لئے بغیر حج کے ارادے سے
بیت اللہ شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں انہوں نے عیسائیوں کی
ایک بستی میں قیام کیا، تینوں (زاہدوں) میں سے ایک کی نظر ایک خوبصورت
نصرانی عورت پر پڑی تو اس کا دل اس کی طرف مائل ہو گیا، جب تینوں نے سفر کا
ارادہ کیا، تو اس نے حیلے بہانے سے ان کو ٹا ل دیااور خود وہیں بیٹھ گیا،
اس کے دو نو ں رفیق چلے گئے اور اس کوبستی ہی میں چھوڑ دیا، اب اس نے اپنے
دل کی با ت اس عورت کے والد سے کی،اس نے کہا :''اس کا مہر تجھ پر بہت بھا ر
ی ہے تم اس کی طا قت نہیں رکھتے۔'' اس نے پوچھا: ''کیا مہر ہے ؟''اس کے وا
لد نے کہا: '' تو دینِ اسلا م کو چھوڑ کر عیسائیت میں دا خل ہو جا۔''
چنانچہ اس زاہد نے نصرانی ہو کر اس عورت سے شادی کر لی اور دو بچے بھی پیدا
ہوئے۔ آخرکار وہ نصرانیت پر ہی مر گیا۔ جب اس کے دونوں ساتھی کچھ سالوں
بعد سفر سے وا پس آئے تواس کے متعلق دریافت کیا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ
تو نصرا نیت پر مر چکا ہے اور نصرانیوں نے اسے اپنے قبرستان میں دفن کر دیا
ہے تو وہ اس کی قبر پر تشریف لے گئے، وہاں ایک عورت اور دو بچوں کو قبر پر
روتے ہوئے پایا۔وہ دونوں بھی دور سے رونے لگے۔ عورت نے ان سے پوچھا: ''آپ
کیوں رو رہے ہیں؟'' انہوں نے اس کی عبادت، نماز، اور زہد کا تذکرہ کیا۔ جب
عورت نے یہ سنا تو اس کا دل اسلا م کی طرف مائل ہوگیا اور وہ اپنے دونوں
بچوں سمیت اسلا م لے آئی۔
حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابومحمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ''سُبْحَانَ اللہ عزَّوَجَلَّ! جو مسلما ن تھا کفر پر مر ا اور جو کا فر تھا اسلا م لے آیا۔ تو مسلما ن کو چا ہے کہ اپنے انجام سے ڈر تا رہے اور اللہ عزَّوَجَلَّ سے حُسنِ خا تمہ کا سوال کرتا رہے۔''
اے ہمارے پیارے اللہ کریم ہمیں اسلام پر زندہ رکھ اور ایمان کی حالت میں موت نصیب فرمانا۔ آمین
حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابومحمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ''سُبْحَانَ اللہ عزَّوَجَلَّ! جو مسلما ن تھا کفر پر مر ا اور جو کا فر تھا اسلا م لے آیا۔ تو مسلما ن کو چا ہے کہ اپنے انجام سے ڈر تا رہے اور اللہ عزَّوَجَلَّ سے حُسنِ خا تمہ کا سوال کرتا رہے۔''
اے ہمارے پیارے اللہ کریم ہمیں اسلام پر زندہ رکھ اور ایمان کی حالت میں موت نصیب فرمانا۔ آمین
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
حضرت
عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت کئی مرتبہ حاصل ھوئی کہ وحیِ
خداوندی نے ان کی رائے کی تائید کی.. حافظ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ
علیہ نے "تاریخ الخلفاء" میں ایسے بیس اکیس مواقع کی نشاندھی کی ھے اور
امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمتہ اللہ علیہ نے "ازالة الخفاء عن
خلافة الخلفاء" میں دس گیارہ واقعات کا ذکر کیا ھے.. ان میں سے چند یہ
ھیں..
۱:… حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ جنگِ بدر کے قیدیوں کو قتل کیا جائے.. اس کی تائید میں سورة الانفال کی آیت:۶۷ نازل ھوئی..
۲:… منافقوں کا سرغنہ "عبداللہ بن اُبیّ" مرا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ اس منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے.. اس کی تائید میں سورة التوبہ کی آیت:۸۴ نازل ھوئی..
۳:… حضرت عمر رضی اللہ عنہ مقامِ ابراھیم کو نمازگاہ بنانے کے حق میں تھے.. اس کی تائید میں سورہٴ بقرہ کی آیت :۱۲۵ نازل ھوئی..
۴:… حضرت عمر رضی اللہ عنہ ازواجِ مطہرات کو پردہ میں رھنے کا مشورہ دیتے تھے.. اس پر سورہٴ احزاب کی آیت:۵۳ نازل ھوئی اور پردہ لازم کردیا گیا..
۵:… ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب بدباطن منافقوں نے نارَوا تہمت لگائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (دیگر صحابہ کے علاوہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی رائے طلب کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے سنتے ھی بےساختہ کہا.. "توبہ ! توبہ ! یہ تو کھلا بہتان ھے.." بعد میں انہی الفاظ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت نازل ھوئی..
۶:… ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازواجِ مطہرات کو فہمائش کرتے ھوئے ان سے کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تم سے بہتر بیویاں عطا کردے گا.. اس کی تائید میں سورة التحریم کی آیت نمبر:۵ نازل ھوئی.
۱:… حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ جنگِ بدر کے قیدیوں کو قتل کیا جائے.. اس کی تائید میں سورة الانفال کی آیت:۶۷ نازل ھوئی..
۲:… منافقوں کا سرغنہ "عبداللہ بن اُبیّ" مرا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ اس منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے.. اس کی تائید میں سورة التوبہ کی آیت:۸۴ نازل ھوئی..
۳:… حضرت عمر رضی اللہ عنہ مقامِ ابراھیم کو نمازگاہ بنانے کے حق میں تھے.. اس کی تائید میں سورہٴ بقرہ کی آیت :۱۲۵ نازل ھوئی..
۴:… حضرت عمر رضی اللہ عنہ ازواجِ مطہرات کو پردہ میں رھنے کا مشورہ دیتے تھے.. اس پر سورہٴ احزاب کی آیت:۵۳ نازل ھوئی اور پردہ لازم کردیا گیا..
۵:… ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب بدباطن منافقوں نے نارَوا تہمت لگائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (دیگر صحابہ کے علاوہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی رائے طلب کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے سنتے ھی بےساختہ کہا.. "توبہ ! توبہ ! یہ تو کھلا بہتان ھے.." بعد میں انہی الفاظ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت نازل ھوئی..
۶:… ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازواجِ مطہرات کو فہمائش کرتے ھوئے ان سے کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تم سے بہتر بیویاں عطا کردے گا.. اس کی تائید میں سورة التحریم کی آیت نمبر:۵ نازل ھوئی.
Subscribe to:
Posts (Atom)